مہاراشر میں وزیراعلیٰ کے چہرے کولے کر مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے ایک اہم بیان دیا ہے۔ابھی تو ہمارے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے ہیں ، لیکن اسمبلی انتخابات کے بعد ہم سب بیٹھ کراس پر غورکریں گے ۔یہ دوسراموقع ہے جب مرکزی وزیرداخلہ نے اس طرح کابیان دیا ہے ۔ویسے ریاست میں انتخابات کے بعد جیت کی صورت میں جو بات بی جے پی کی طرف سے کہی جارہی ہے ، وہ بارہااپوزیشن مہاوکاس اگھاڑی کے لیڈران کہہ چکے ہیں ۔ان کا تو یہاں تک کہناہے کہ حکمراں مہایوتی کو کامیابی ملی ، توایکناتھ شندے کو بی جے پی وزیراعلیٰ نہیں بننے دے گی ۔اگلے وزیراعلیٰ کا مسئلہ صرف مہایوتی میں نہیں ہے ، بلکہ مہاوکاس اگھاڑی میں بھی ہے ۔وہاں بھی کسی نام پر اتفاق نہیں ہوسکا ، اسی لئے وزیراعلیٰ کے چہرے کا اعلان نہیں کیا گیا اوراسے الیکشن کے بعد محصولہ سیٹوں کی تعداد پر چھوڑدیاگیا ۔اس سے صاف پتہ چلتاہے کہ مجبوری میں بھلے ہی اس بار پہلے ادھو ٹھاکرے اوربعد میں ایکناتھ شندے کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا ، لیکن اب اس کرسی پرنظر سبھی پارٹیوں کی ہے ۔اسی لئے اس بار حکمراں اوراپوزیشن اتحاد میں سے کسی نے بھی وزیراعلیٰ کے چہرے کا اعلان نہیں کیا۔چہرے کا اعلان پارٹیاں کیسے کرتیں ، جب ان میں سیٹوں کی تقسیم بڑی مشکل سے ہوئی ۔ آخری وقت تک ان کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کیلئے رسہ کشی چلتی رہی ۔پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے آخری دن صورت حال بالکل غیریقینی تھی ۔پتہ نہیں چل رہاتھاکہ کس پارٹی کی طرف سے کتنے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔ہرپارٹی کو حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا اورماضی کے مقابلے میں کم سیٹوں پر الیکشن لڑناپڑا، جس کی وجہ سے لیڈروں کی بغاوت کا بھی سامناکرناپڑا۔اس پر بھی قابوپانا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔خیراب زورشورسے انتخابی مہم چل رہی ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوک سبھا انتخابات ہوں ، تووزیراعظم کی کرسی پر ،اسمبلی انتخابات ہوں ، تووزیراعلیٰ کی کرسی اورکارپوریشن کے انتخابات ہوں ، تومیئرکی کرسی پر ہر سیاسی پارٹی کی للچائی ہوئی نظرہوتی ہے اورہرپارٹی چاہتی ہے کہ وہ کرسی صرف اسی کو ملے ، کسی اورکو نہیں ،لیکن اس میں کامیاب کوئی ایک ہی پارٹی ہوتی ہے ، دوسری پارٹیوں کو وزارت یا زیادہ سے زیادہ نائب وزیراعلیٰ سے کام چلانا پڑتاہے ۔مخلوط حکومت کے دور میں مرکز میں ابھی تک صرف وزیراعظم ہی بن رہاہے ،گزشتہ 5میعاد سے کوئی نائب وزیراعظم نہیں بن رہاہے ، لیکن ریاستی سطح پر صرف وزیراعلیٰ کی کرسی سے مسئلہ حل نہیں ہورہاہے ۔ اس لئے اب 2-2 اور3-3نائب وزیراعلیٰ بنائے جارہے ہیں ، تاکہ سبھی ذاتوں اورپارٹیوں کو خوش رکھاجاسکے اورپارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے سودے بازی کرنے میں آسانی ہوسکے ۔اس وقت ملک کی کئی ریاستوں میں 2یا3نائب وزیر اعلیٰ ہیں ۔
پھر بھی جو اہمیت وزیراعلیٰ کی کرسی کی ہوتی ہے ، وہ اس کے نائب کی نہیں ہوتی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر میں اس بار انتخابات سے پہلے وزیراعلیٰ کے چہرے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے جو رسہ کشی سیٹوں کیلئے ہوئی ، وہ الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ کی کرسی کیلئے ہوگی ، سودے بازی کا بھی بہت زیادہ امکان ہے۔لوک سبھا انتخابات کے نتائج کچھ ایسے رہے کہ کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہونے کا امکان کم نظرآرہاہے ۔ کون سی پارٹی اسمبلی میں بڑی پارٹی بنے گی ،اس بابت بھی ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ امت شاہ نے اگلے وزیراعلیٰ کے تعلق سے جو کہا ہے ، وہ ایک بڑاپیغام ہے ۔ان کی باتوں سے یہی لگتاہے کہ ابھی توایکناتھ شندے وزیراعلیٰ ہیں ، لیکن بعد میں ہوں گے کہ نہیں ، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔شاید جس پارٹی کوسب سے زیادہ سیٹیں ملیں گی ، اسی سے وزیراعلیٰ بنے گا۔نائب وزیراعلیٰ اتحادی پارٹیوں سے ہی بنیں گے ۔
ایک دوروہ تھا جب انتخابات میںسیاسی پارٹیوں کی طرف سے باقاعدہ چہرے کا اعلان کیا جاتا تھااوراس کے نام پر ووٹ مانگے جاتے تھے اور جس پارٹی کی طرف سے چہرے کا اعلان نہیں کیا جاتاتھا ، اس پر تنقید کی جاتی تھی ۔اب وہ دور آگیا ہے کہ کوئی بھی پارٹی چہرے کا اعلان نہیں کرتی ہے ۔ انتخابات کے بعد منتخب ممبران اسمبلی کے ساتھ کئی دنوں تک بات چیت اوردعویداروں کو کسی ایک نام پر راضی کرنے کے بعد قانون ساز پارٹی کی میٹنگ میں لیڈرکے انتخاب کی رسم ادا کی جاتی ہے ،اسی لئے اب حکومت کی تشکیل ، حلف برداری اوروزرا کے درمیان قلمدانوں کی تقسیم میں تاخیر ہوتی ہے ۔