ڈاکٹرسیداحمدقادری
کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے (سابق) چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سات رکنی آئینی بنچ نے اپنے اکثریتی فیصلہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دہائیوں پرانے قضیہ یا تنازع کوختم کرکے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو آرٹیکل 30 کے تحت بحال کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ 1967 کے عزیز پاشا مقدمہ میں الہ آباد ہائی کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کر دیا تھا، جس سے فرقہ پرستوں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دشمنوں کو بڑی تقویت ملی تھی اور یہ لوگ مسلسل اس عظیم اورتاریخی درس گاہ کے خلاف طرح طرح کی منظم اور سازشی کھیل کھیل رہے تھے، لیکن اس فیصلہ سے بلا شبہ ان فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے، لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس فیصلہ میں ایک دروازہ نہ جانے کیوں اور کس مصلحت کے تحت کھلا چھوڑ اگیا ہے کہ اس سات رکنی کے اکثریتی فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ کی نئی ریگولر بنچ مزید جائزہ لے کر اس کے اقلیتی کردار کا فیصلہ کرے گی۔اس کے پیچھے پوشیدہ منشایاکون سی قانونی داؤ پیچ ہے یہ تو ماہر قانون ہی بتائیں گے ۔یہ حقیقت ہے کہ جب جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر ضرب لگانے کی دانستہ فرقہ پرستوں نے کوششیں کی ہیں ، تب تب ایسی کوششوں پر قد غن لگانے کی ہر ممکن کوشش پچھلی حکومت کے ذریعہ کی گئی ، خواہ وہ وزیر اعظم اندرا گاندھی ہوں ، جنھوں نے الہ آباد کے غلط فیصلہ کو ختم کرنے کیلئے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کیا تھا یا پھر منموہن سنگھ حکومت ہو، جس نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی حمایت میں حلف نامہ دیا ہو، لیکن جب بی جے پی کی حکومت برسراقتدار آئی ، اس نے طرح طرح کے بہانوں اور پھر 2016 میں سپریم کورٹ میں باضابطہ حلف نامہ داخل کرکے منموہن سنگھ حکومت کے دائر کردہ حلف نامہ کو یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا تھا کہ یوپی اے حکومت کا یہ حلف نامہ عوامی پالیسی کے خلاف تھا۔ اس حلف نامہ کے بعدسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف ریشہ دوانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور طرح طرح سے اس یونیورسٹی کے خلاف محاذ آرائی کی جا رہی تھی جو موجودہ حکومت کے ایجنڈے کے عین مطابق تھی اور ہے ۔
اب ہم اس تاریخی یونیورسٹی کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر ڈالیں تو حیرت انگیز اور بے حدخوش آئین حقائق سامنے آتے ہیں ۔ہم اس خوشگوار حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہیں قائم ہوتی تو آج نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرون ممالک کے لا تعداد مسلمان تعلیمی ، سماجی اور دیگر شعبوں میں جس باوقار طریقے سے اور اپنے تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ، شاید یہ نہ ہوتا ۔ مسلمانوں کے تشخص اور ان کی بڑھتی تعلیمی سرگرمیوں کے پیش نظر ملک کی متعصب اور فرقہ پرست سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے دلوں میں اے ایم یوکانٹے کی طرح زمانے سے کھٹک رہی ہے ۔ کافی عرصے سے یہ لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور اس یونیورسٹی کے تشخص کو ختم کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں لیکن جب سے یہ پارٹی مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے ۔ اس کے منافرت سے بھرے عزائم اور حوصلے بڑھ گئے اور وہ ہر قیمت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردا کو سلب کرنے یا کرانے کے درپے رہے تاکہ یہاں کے مسلمان نہ صرف تعلیمی ، بلکہ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہو جائیں اور یہ بے وقعت ہو کر نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی ، سیاسی اور معاشی طور پر حاشیہ پر چلے جائیں ۔ ان کی نگاہ میں یہ بات بھی ضرور ہے کہ اس وقت یہاں کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے ۔ دن بدن ان کی بہتر زندگی کا خواب نہ صرف ادھورا ہوتا جا رہا ہے ، بلکہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس لئے اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا جہاں مسلم بچوں کیلئے پچاس فی صد سیٹیں مخصوص ہیں ، اقلیتی کردارختم کر ا دیے جائے تو یہ تناسب بھی مزید کم ہو جائے گا۔ ایسی کوشش 1967 میں بھی ہوئی تھی اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو سلب کر لیاگیا تھا ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اور حکومت وقت کو آخر کا سپر ڈالنی پڑی تھی اور وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی نے وقت کی نزاکت اور بگڑتے حالات کے مد نظر قانون سازی کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی ترقی کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس لئے اس میں کسی طرح کی رخنہ اندازی نہیں ہونی چاہئے ۔
مرکزی حکومت کی وزارت انسانی فلاح وبہبود ، نے اس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سلسلے میں جو رویۂ اپنایا ، وہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے، بلکہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے اور حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ملک کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا نہیں ہے۔برسہا برس سے یہاں مختلف مذاہب ، زبان ، کلچر کے لوگ یکجہتی او راخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں ، اس لئے اس ملک میں ہر مذاہب کے لوگوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئے او رآئین نے جو حقوق خاص طور پر دفعہ 29اور30 میںدیا ہے، جن کے رو سے یہاں کے اقلیتوں کو اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ رہنے کا حق دیا گیا ہے، نیز لسانی اور مذہبی اقلیتی اداروں کے قائم کرنے کا حق بھی حاصل ہے اور یہی دفعات فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر بنا ہوا ہے ۔ یہ منافرت پھیلانے والے متعصب لوگ ہر قیمت پر یہاں کے مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے یہاں کے مسلمانوں کی تعلیمی سہولیات اور معاشی مراعات کو ختم کرنے کے درپے ہیں، لیکن اگرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لوگ اپنی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی سازشوں کو سمجھیں او ران کے منصوبوں کو ناکام بنا نے کیلئے آپسی اختلافات کو بھلا کر اپنے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں تو یقینی طور پر ان فرقہ پرستوں کو مُنھ کی کھانی پڑے گی اور سر سید کا قائم کردہ یہ تعلیمی ادارہ پوری کامیابی کے ساتھ آگے کی طرف گامزن رہے گا ۔ سر سید نے ملک کے مسلمانوں کیلئے جو تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور اس سے جس طرح لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے مستفیض ہو رہے ہیں اور یہاں سے تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک اور بیرون ممالک کے گوشے گوشے میں باوقار زندگی گزار رہے ہیں ۔ انھیں کون فراموش کر سکتا ہے ۔ ان کے اس عظیم کار ہائے نمایاں کی عظمت کا اعتراف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلباو طالبات ملک یا بیرون ملک جہاں بھی وہ ہیں ، وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی تشکیل کر کے ہر سال سر سید کی یوم پیدائش پر بڑا جلسہ منعقد کر تے ہوئے سر سید کے تئیں اظہار تشکر کرتے ہیں ۔ میرا اپنا خیال ہے کہ غالباً دنیا کی یہ واحد تعلیم گاہ ہے ، جہاں کی یادیں لوگ بھولتے نہیں ہیں اور ہر سال شاندار تقریب میں علیگ ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یادوں کے چراغ روشن کرتے ہیں۔
ایک سوچالیس سالہ اس قدیم تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے ۔اس کے ماضی کے اوراق کو پلٹیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ مغل حکومت کا خاتمہ ، ان کی پسپائی، انگریزوں کا بڑھتا تسلط اور ان کا خاص طور پر ملک کے مسلمانوں پر جبر واستبداد، اس دور کیلئے لمحۂ فکریہ تھا ۔ یہاں کے مسلمانوں کے حوصلہ ، جرأت ، ہمّت، وقعت اور عزت وناموس کو انگریزوں نے پارہ پارہ کر دیا تھا۔ایسے حوصلہ شکن اور ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے، ان کا تدارک کن نہج پر ہو ۔ ان امور پر امت مسلمہ کیلئے درد رکھنے اور فکر کرنے والے دانشور، مدبر اور محب وطن پریشان تھے اور وہ اپنے اپنے افکار وخیالات کے ساتھ ساتھ سامنے آئے ۔ ان میں سر سید احمد خاں کا نام نمایاں تھا ۔ ان کے دل میں انسانی درد اور فلاح امّت مسلمہ کا جزبہ بھرا تھا اور وہ ملک میں مسلمانوں کے مستقبل کیلئے فکر مند تھے ۔ بھارت کے مسلمانوں کی بہتر ی اور شاندار مستقبل کیلئے کچھ کر گزرنے کیلئے وہ بے چین تھے ۔ سر سید کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر یہی نا مساعد حالات رہے تو یہاں کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا ۔ اس جزبے کے تحت وہ مسلمانوں کی عصری تعلیمی مشن کو لے کرعملی میدان میں کود پڑے اور بہت ساری مخالفتوں کے باوجود وہ اپنے تعلیمی مشن کو لے کر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن جس طرح سے اس زمانے میں ان کے اس تعلیمی مشن کی مخالفت ہو رہی تھی اس وقت سر سید کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ عوام تک اپنے اس تعلیمی مشن کے افکار و خیالات کی دور تک رسائی کیلئے بہترین ذریعہ صحافت ہو سکتی ہے ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کیلئے صحافت جیسے خاردار اور پر خطر راستے کا انتخاب اپنے ابتدائی دور میں ہی کیا اور بھارت کے مسلمانوں کو تعلیمی ، معاشرتی اور تہذیبی طور پر ایک مکمل اور بہتر طرز زندگی کی جانب راغب کرانے کے اور ان کی معاشی بدحالی دور کرنے ، سیاسی و سماجی شعور پیدا کرنے اور سماجی پسماندگی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کھوئے ہوئے وقار وعظمت کو بحال کرنے کے مقصد کے تحت انہوں نے صحافت کا سہارا لیا ۔ غالباََ ایسے ہی صحافی کے بارے میں امداد امام اثر کا خیال تھا کہ ’ ایک صحافی مؤرخ وناقد کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ مؤرخ ہی نہیں بلکہ قوم وملک کے خیالات وماحول کو بنانے اور سدھارنے، بدلنے اور بگاڑنے کی بھی طاقت رکھتا ہے ۔‘
سر سید کی صحافت ان کی ذہانت ،دانشوری، دوراندیشی اور اپنے نظریات و خیالات کے مظہر ہیں اور ان کا ہر اداریہ ایک طویل تشریح و تفسیر کی متقاضی ہے ۔ سر سید نے بھارت کے مسلمانوں کوکامل درجہ کی تہذیب اختیار کرنے کی جانب راغب کرنے کے تاکہ ان کا شمار دنیا کی معزز اور مہذب قوموں میں کیا جائے۔24 ؍ دسمبر 1875 ء سے ایک رسالہ بھی نکالا ۔ اس کے بھی دو نام تھے، اردو میں ’تہذیب الاخلاق‘ اور انگریزی میں ’دی محمڈن سوشل ریفارمر‘ ۔ ان کے مختلف شماروں میں ایسے ایسے اہم ، بامقصد اور مؤثر مضامین شائع ہوئے کہ بعض ناعاقبت اندیشوں کی نیندیں حرام ہونے لگیں اور ’تہذیب الا خلاق‘کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور کامیابی کی جانب بڑھتے ہوئے سر سید کے قدم نے قدامت پسند لوگوں اور سر سید کے مخالفوں کو بے چین کر دیا او رسر سید کی رہنمائی میں بڑھتے کارواں کے سامنے انھیں اپنا وجود خطرہ میں نظر آنے لگا تھا، لیکن الطاف حسین حالی جیسی جید شخصیت ، سر سید کی تحریر و تحریک کی بڑی مداح تھی۔ ’تہذیب الا خلاق ‘ کی اشاعت کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت اور مخالفت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ ’ اس کی اشاعت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ ’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘ قائم ہو گیا ، جو آج تعلیم کا سب سے بڑا مرکز بن کر ’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے نام سے ہمارے سامنے ہے ‘۔
اس مختصر جائزہ کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سر سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کر کے بھارت کے مسلمانوں کے اندر تعلیمی صلاحیت اور لیاقت پیدا کرکے نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہونے بلکہ سماجی ، سیاسی اور معاشرتی و تہذیبی اقدار کو سمجھنے اور عمل کرنے کا رجحان بھی پیدا کیا ہے ۔ یہ سر سید کی ہی دین ہے کہ ملک کے کئی گوشوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرز پر تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں لا کر مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ان کے اندر خود اعتمادی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ جو دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے ۔ اے ایم یو نے جس طرح یہاں کے مسلمانوں کو تعلیمی ، سماجی ، معاشرتی اور سیاسی شعور اور فہم و ادراک پیدا کر کے باوقار زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا ہے ۔ اس سے متعصب او رفرقہ پرست لوگوں کی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں ۔ اس یونیورسٹی کی مخالفت وہی لوگ زیادہ کر رہے ہیں، جو منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت یہاں کے مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال کر انھیںتعلیمی، سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر بے وقعت اوربے دست و پا کرنا چاہتے ہیں ،لیکن ابھی جو فیصلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حق میں سپریم کورٹ کا آیا ہے اس سے ممکن ہے کسی حد تک ان کے حوصلے پست ہوں گے۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]