پروفیسر منظر حسین
کسی بڑے فنکار کی عظمت کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ اس کے سرمایہ فکر میںاحترام آدمیت ،وسیع المشربی ،مذہبی رواداری ،انسانی اخوت اورحب الوطنی کے عناصر کس حدتک موجود ہیںاور وہ ہمیں کتنی بصیرت عطاکرتے ہیں۔ خصوصاً تاریخی شخصیتوں کے تئیں فنکار کابرتائو خود اس کے ذہن وفکرکا معیار متعین کرتا ہے۔ اس جہت سے شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کا مطالعہ کافی اہمیت کاحامل ہے۔ اقبال نے اپنی شعری تخلیق کو ان عظیم ہستیوں کی یاد سے آباد کیاہے جنہوں نے تاریخ کے دھار ے کو متعین کر نے میںکلیدی رول اداکئے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان کی عظیم شخصیتوں کے کارناموں اورپیغامات کو نہایت دیا نتداری سے پیش کر کے وسعت قلبی کا مظاہر ہ کیاہے۔
اقبال ہندوستان کی جن عظیم شخصیتوں کو اپنی شاعری میںجگہ دی ہے ان میںگوتم بدھ ، گرونانک وغیرہ جسے بانیان مذہب بھی ہیں تو دوسری طرف رام ،وشوامتر ،سوامی رام تیرتھ،بھرتری ہری، معین الدین چشتی محبوب الٰہی،حضرت نظام الدین اولیاء ،مجدد الف ثانی جیسے مذہبی وروحانی پیشوابھی ، ٹیپوسلطان اورشیرشاہ وغیرہ جیسے شاہان مملکت سے عقیدت کااظہا رہے تو دوسری طرف سرسیداحمدخان جیسے مصلح قوم کے اصلاحی کا رناموں کااعتراف بھی ۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال نے ہندوستان کی بہت ساری عظیم ہستیوں کو خراج تحسین پیش کیاہے۔ اقبال نے ان شخصیات کے انتخاب میں رنگ ونسل، مذہب وملت کے اعتبار سے کسی قسم کاافتراق نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک شاعرانہ صلاحیتوں کا اصل مقصد خیر کی عظمت کا اعتراف ہے اوریہی سچی دانشوری ہے۔
اقبال نے بانگ درا میںگوتم بدھ کو ’’گوہر ایک دانہ‘‘ اور گرونانک کو ’’فرد کامل ‘‘کے نا م سے یاد کیاہے۔ اپنی نظم ’’نانک ‘‘ میں کہتے ہیں ؎
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروانہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر ایک دانہ کی
شاعر مشرق نے اپنی فارسی تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘ میںگوتم بدھ کے فلسفہ اخلاق کی تشریح وتوضیح کی ہے۔ اقبال کے لفظوں میں گوتم بدھ کے وعظ کاایک نکتہ یہ بھی ہے ؎
از خود اندیش وازیں بادیہ ترساں مگذر
کہ توہستی ووجود دوجہاں چیزے نیست
یعنی اپنی شخصیت کی اصلاح اورتکمیل کی کوشش کرو، دنیا (بادیہ) اوراس کے واقعات وحادثات سے قطعی متاثر مت ہو کیونکہ درحقیقت تم موجود ہواور یہ کائنات موجود نہیںہے، اس کاوجود تمہارے تصورات پرمبنی ہے گوتم بدھ نے اپنی اخلاقی تعلیمات (اشٹنگ مارگ) میںاصلاح نفس کاجو طریقہ وضع کیاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ حسن رخسار یعنی دنیاوی لذتیں سب فانی ہیں۔ آج ہیںکل نہ ہوںگی۔ جو چیز دراصل حاصل کرنے کے لائق ہیںوہ پاکیزہ خیالات اور اعمال ہیں’’حسن رخسار ‘‘ اور’’حسن کردار‘‘ سے بڑھ کر کوئی نعمت یالذت نہیںہے۔ ؎
حسن رخساردمے، ہست ودمے دیگر نیست
حسن کردار وخیالات خوشاں چیز ے ہست
ہم اقبال کی وسعت قلبی کا داددیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ گوتم بدھ کی اخلاقی تعلیمات کاخلاصہ دو لفظوںمیںپیش کردیا۔گوتم بدھ کے ذکر میںشاعر مشرق کے احترام وعقیدت کا جذبہ اس حدتک کار فرماہے کہ انہوںنے پیغمبروں کے زمرے میںشامل کیاہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال شری رام چندرجی کی توصیف وتعریف میںبانگ درا میںجواشعار لکھے ہیں ،نہایت قابل ذکر ہیں اگر اقبال کواپنارمز شوق لاالہ میںپوشید ہ نظرآتاہے تو رام کے پیمانوںسے بھی انہیں وہی شراب حقیقت چھلکتی نظرآتی ہیں۔ اقبال کھلے لفظوں میں انہیں ہندوستان کاامام یاپیغمبر تسلیم کرتے ہیں کہتے ہیں ؎
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کوناز
اہل نظر سمجھتے ہیںاس کو امام ہند
اعجاز اس چراغ ہدایت کاہے یہی
روشن تراز سحر ہے زمانے میںشام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میںفرد تھا
پاکیزگی میںجوش محبت میںفرد تھا
اقبال نے ہندوستان کی جن دیگر عظیم شخصیتوں کو خراج عقیدت پیش کیاہے ان میںگرونانک کو بھی نمایاںمقام ہے۔ اپنی نظم ’’نانک ‘‘ میںاقبال نے انہیں فرد کامل اور توحید کا سب سے بڑا علمبراد قرار دیاہے۔دیکھئے یہ شعر ؎
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنچاب سے
ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا خواب سے
ہندوستان کے ایک ویر اگی شاعر اور فلسفی بھر تری ہری اقبال کے محبوب ہندو شعر اء میںہیں۔شاعر مشرق اس قدر متاثر ہیںکہ بھر تری ہری کے ایک شلوک کو فارسی کا شعری جامہ عطاکرکے’ بال جبریل ‘کا عنوان بنادیا۔ ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کاجگر
مرد ناداںپہ کلام نرم نازک بے اثر
جاوید نامہ کے ’’آں سوئے افلاک‘‘ والے حصہ میں زندہ رود کی ملاقات بھر تری ہری سے ہوتی ہے۔ رومی شاعر کو اس سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لہذا موقع کو غنیمت جان کر زندہ رود پوچھتا ہے کہ شعر میں سوز کہاںسے آتاہے۔
شعررا سوز از کجا آید بگوئے
از خودی یا ازخدا آید بگوئے
بھرتری ہری نے بتایا کہ ہماری روح کی ساری لذت اورراحت جستجو پر موقوف ہے۔لہذا جس شاعر کے دل میںجستجو کا جذبہ کا ر فرماہے اس کے کلام میںسوز وگداز کا رنگ پیداہو نا لازمی ہے۔
جان مارا لذت اند ر جستجو ست
شعررا سوز از مقام آرزوست
آگے چل کر زندہ رود کی گذارش پر یہ فلسفی یوگی شاعر اہل ہند کو جہدوعمل کاپیغام دیتاہے جس کاخلاصہ یہ ہے۔ ؎
پیش آئین مکانات عمل سجدہ گذار
زانکہ خیزدزعمل دوزخ واعراف وبہشت
جاوید نامہ میںفلک قمر کے ایک غار میں پہلی روح جو اقبال اور ان کے رہنما رومی کو نظر آتی ہے، ہندوستان کے ایک قدیم عارف وشوامترکی ہے جسے اہل ہند’’جہاںدوست‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے وہاں (غارمیں)ایک درخت کے نیچے ایک ہندی نژاد عارف بیٹھا ہوا تھا۔ وہ عریاں بدن تھااور بالوں کاجوڑا اس کے سرپربندھا ہواتھا اور اس کے گرد ایک سفید سانپ حلقہ زن تھا۔ عارف ہندی نے شاعر کے متعلق اس کے رہنما سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے ؟مجھے اس کی نگاہوں میں جاوداں ہونے کی آرزو نظرآتی ہے۔
گفت بارومی کہ ہمراہ توکسیت؟
درنگا ہش آرزوئے زندگیست
دونوںاسلامی شعراء سب سے پہلے اسی استاد کامل کی زبانی عالم کی حقیقت اورمعارف سے آشنا ہوتے ہیں ۔ جہاں دوست نے بتایاکہ عالم رنگ ہے یعنی تعینات اور تقیدات کامجموعہ ہے جبکہ حق بے رنگی کانام ہے،یعنی تمام تعینات وتقیدات سے آزاد اوبالاتر، شاعر اور اس کے رہنما رومی سے عارف ہندی (وشوامتر)سے ملاقات ،فلسفیانہ مسائل پرگفتگو عارف ہندی کا شاعر کی علمیت واستعداد کا امتحان لینا اور جواب سن کرشاعر کوقیمتی اورعلمی نکات سمجھا نا ۔یہ پوری تفصیل اقبال کے احترام آدمیت اور وسعت قلبی کا ترجمان ہے۔
اقبال کویقین تھاکہ دنیا کی تقدیر بنانے اورتاریخ کا دھارا متعین کرنے میں فرد کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ان کا یہ یقین ان کے فلسفہ ٔخود ی کے عین مطابق ہے ۔ایک فرد جب اپنی خودی کی تربیت کرکے اسے پروان چڑھاتاہے تووہ بے انتہاروحانی قوتوں کا خزانہ بن جاتاہے۔اقبال ہندوستان کی تاریخ میں جن عظیم شخصیتوں کے انتخاب میںاپنی وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہیں ان میں سلطان ٹیپو شہید کی شخصیت میںکردار کی بلندی اور فکر کی عمق پالیتے ہیں جوان کے نظریہ حیات سے یک گونہ مطابقت رکھتا ہے۔شاعر مشرق نے ضرب کلیم ’’میں ایک نظم ’’سلطان ٹیپوکی وصیت ‘‘ کے عنوان سے قلمبند کی ہے جس میں سلطان شہید کی وصیت کو پروقار انداز میں پیش کیا گیاہے۔ جس کی وجہ سے الہامی نغموںکی شان پیدا ہو گئی ہے۔پہلا ہی شعر ہے ؎
تو رہ نورد شو ق ہے؟ منزل نہ کرقبول
لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کرقبول
اور آخری شعر ہے ؎
باطل دوئی پسند ہے ،حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق وباطل نہ کرقبول
( جاری)