وہی ہوا جس کا ’’ ڈر‘‘ تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ ایک دفعہ پھر امریکہ کے صدر کے عہدے پر منتخب ہوگئے ہیں۔ اس الیکشن کے نتائج کا جتنا امریکیوں کو انتظار تھا اس سے کہیں زیادہ تجسس دنیا کو تھی۔ اس الیکشن نے گزشتہ 9ماہ میں پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی۔ خاص طور پر مغربی ایشیا اور عرب دنیا امریکی صدارتی انتخابات میں سرگرمیوں کو غور سے دیکھ اور سن رہے تھے اس الیکشن کا براہ راست اثر مغربی ایشیا خاص طور پر مغربی کنارے اور غزہ کی حالات پر پڑے گا۔ یہ اثر منفی ہوگا یا مثبت اس بابت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن ماضی بعید اور ماضی قریب میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات پر غور کرنا ہوگا اور یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی کہ ڈونالڈ ٹرمپ پر کن لوگوں کی اثرو رسوخ ہے۔
گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے جن علاقوں میں اسرائیل نے بربریت مچائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسرائیل اپنے قیام سے آ ج تک کی سب سے طویل جنگ یا کہیں طویل فوجی کارروائی انجام دے رہا ہے۔ جس میں محدود اور محتاط اندازوں کے مطابق 43ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان قربان ہوگئی ہے۔ جس انداز سے 7اکتوبر 2023کی فوجی کارروائی کو انجام دیا گیا تھا وہ کئی معنوں میں بحث کا موضوع رہی ہے۔ کچھ لوگ اس کو فلسطینیوں کے آزادی کے حصول کی ایک کوشش مانتے ہیں تو کچھ لوگو ںکا کہنا ہے کہ اس جذباتی کارروائی کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل ہوا ۔ یہ کارروائی غیر ضروری اور غیر دانشمندانہ تھی مگر اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ان واقعات نے کئی عالمی ادارے غزہ میں مرنے والے افراد کی تعداد کو کم از کم دو لاکھ کے قریب بتاتے ہیں۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر مہلوکین کی لاشیں ابھی بھی ملبے میں دھنسی ہوئی ہیں اور ان کو نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے اور محض اندازوں کی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے کم نہیں ہوگی۔ خیال رہے اس بار غزہ میں کوئی بھی عمارت نہیں ہے، ایسے حالات میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے اعداد وشمار رکھنا ناممکن ہے ، تقریباً 14ماہ کی مغربی وحشیانہ کارروائی کے بعد غزہ میں کوئی ایسا نظام نہیں ہے کہ زخمی ہونے والوں کے اعداد وشمار رکھ سکے۔
بہر کیف امریکہ کے الیکشن میں غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے معاملات پر کافی بحث ہوئی ہے اور حکمراں پارٹی کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اورنائب صدر کملا ہیرس پر جوبائیڈن حکومت کی بے عملی اور بدعملی کے لیے سخت نکتہ چینی ہوئی ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ پر الزام ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو بلا روک ٹوک ہتھیار دیے ، جدید ترین آلات حربی دیے۔ اس کی وجہ سے امریکہ کو زبردست نکتہ چینی کا نشانہ بنا یا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ امریکہ کے دور ے پر نیتن یاہو اور کملا ہیرس کی ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ اس وقت دونوں لیڈروں کی ملاقات میں اختیار کی گئی باڈی لینگویج پر کافی تبصرے ہوئے جس پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دونوں کے درمیان سخت اختلافات ہیں، مگر اس ملاقات کے جو نتائج دیکھے گئے تھے وہ اسرائیل کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے تھے جو بائیڈن اور نیتن یاہو کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے مگر دونوں ملکوں کے درمیان رشتہ میں انفرادی تعلقات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ جس وقت یہ الیکشن اپنے شباب پر تھا اور امریکہ میں ووٹ ڈالے جارہے تھے اس وقت نیتن یاہو نے اپنے حریف وزیر دفاع گلانٹ کو عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ نیتن یاہو ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور گزشتہ ایک سال سے گلانٹ کے ساتھ ان کے تعلقات میں تلخی کی خبریں آرہی تھیں۔ ایک ماہ قبل لبنان پر حملے سے قبل ہی دونوں کے درمیان یہ خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں کہ سخت اختلافات کی وجہ سے اسرائیل میں بے چینی اور عدم استحکام پیدا ہورہا ہے۔ گلانٹ غزہ میں فوجی کارروائی بند کرنے وہاں کے انتظامیہ فلسطینیوں کے حوالے کرنے اور لبنان کی طرف زیادہ توجہ دینے کی پالیسی اختیار کرنے کے حامی تھے۔ جبکہ نیتن یاہو غزہ میں پورا انتظام اسرائیلی فوج کے حوالے کرنے کے حامی تھے۔ گلانٹ اور امریکہ کے درمیان مذکورہ بالا امور پر اتفاق تھا اور کئی حلقوں میں یہ خبریں گشت کررہی تھیں کہ گلانٹ کو اسرائیل میں نیتن یاہو کی جگہ متمکن کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ گلانٹ امریکہ کے پالیسی سازوں کے بہت قریب تھے۔ الیکشن کے دن ہی گلانٹ کو عہدے سے برطرف کرنے کے مقاصد بھی نتائج آنے کے بعد واضح ہوگئے ہیں۔ امریکہ میں نیا انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے اس پر نظر رہے گی۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نئے صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کی حلف برداری میں ابھی کافی دیر ہے۔ تقریباً دو ماہ بعد ڈونالڈ ٹرمپ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ جب تک اسرائیل لبنان ، غزہ مغربی کنارے میں کیا گل کھلائے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ ہارے تو اس کے لیے یہودی ذمہ دار ہوں گے اور وہ جنگ بندی چاہتے ہیں او ر قیام امن پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ دونوں بیانات باہم متصادم ہیں مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کے پس پشت امریکہ کے سفید فام ، قوم پرستوں کی قوت ہے اور سیاہ فام یا دوسرے مکاتب فکر کے لوگ کملا ہیرس کو مختلف وجوہ سے ترجیح دیتے تھے۔ سابق صدر امریکہ براک حسین اوبامہ اوران کی اہلیہ سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام لیڈروں نے پورا زور لگا لیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نہ جیت پائے اس سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف جو مقدمات اور مہم چلائی گئی تھی ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو اس مرتبہ کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کو بعض حلقوں میں خواتین مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کے کئی معاملات سرخیوں میں اور زیر سماعت رہے ہیں۔ بہر کیف آج کے حالات بدلے ہوئے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو کئی ایسے خطوں اور ریاستوں میں کامیابی ملی جو غیر متوقع تھی ان میں پینی سلوانیا ،نارتھ کرولینا ، جورجیا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خیال رہے کہ امریکہ کے انتخابات میں کسی بھی صدارتی امیدوا ر کو کم ازکم 270ووٹس کی ضرورت پڑتی ہے۔ تب ہی وہ صدارتی عہدے پر اپنا حق جما سکتاہے۔ اعدادوشمار بھی مکمل طور پر نہیں آئے ہیں۔ مگر ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم اور عرب ووٹروں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو درکنار کرکے ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ کملا ہیرس کو اس بات کا اندازہ تھا کہ غزہ جنگ کی وجہ سے حکمراں جماعت ہونے کے سبب ان کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔ انہوںنے اس مخالفت کو کم کرنے کے لیے کوشش کی اور آخری لمحوں تک عرب مسلم امریکن ووٹرز کو سادھنے کے لیے خصوصی پروگرام کیے مگر یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ان کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوسکی۔