سپریم کورٹ کے بیک وقت دو عہدآفریں فیصلے : خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

سپریم کورٹ کا ایک ہی دن میں یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ،2004 کے آئینی جواز کی برقراری اور حکومت کو سبھی نجی جائیدادوں کوآئین کی دفعہ 39(ب) کی رو سے تحویل میں نہ لینے سے متعلق دو تاریخی فیصلے آئین کی بالا د ستی اور ہماری عدلیہ کی فعالیت کا معتبر ثبوت ہیں۔ویسے بھی عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ قوانین کی غیرجانبدارانہ تعبیر کرے اور اس تعبیر میں اس کے ذاتی رجحانات کی کوئی جھلک نظر نہ آئے چونکہ اگر ذاتی رجحان فیصلوں کی بنیاد بننے لگے تو انصاف، انصاف نہیں رہے گا اور عدلیہ، عدلیہ۔ اگر ججوں کو اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ وہ من مانے ڈھنگ سے فیصلے دے سکتے ہیں تو یہ عدلیہ کی غیر جانبداری یا اس کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدلیہ کی آزادی کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ بغیر کسی دباؤ یا دخل اندازی کے قانون کی غیرجانبدارانہ تعبیر کرے اور صحیح فیصلے دے۔ برطانوی قانونی اصول، جو ہمیں وراثت میں ملے ہیں،ان کی رو سے بھی تعبیر کے مختلف اصولوں کا مقصد جج کی اس بات میں مدد کرنا ہے کہ وہ اس بات کا قطعی فیصلہ کرسکے کہ قانون ساز اداروں نے کوئی مخصوص قانون کس لیے بنایا ہے اور ان کا ارادہ کیا تھا۔ عدلیہ کا کام اس ارادے یا غرض یا قانون بنانے کی وجہ پر کنٹرول کرنا نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ،2004کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا ہے اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو منسوخ کر دیا ہے جس میں اس نے اس ایکٹ کو اس بنیاد پر غیرآئینی قرار دیا تھا کہ اس کا برقرار رہنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ سیکولراز م کے اصول کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ اقلیتوں کو ا پنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے سے روکا جائے۔ یہ ان کا آئینی حق ہے اور اگر انہیں اس حق کے استعمال سے روکا جاتا ہے تو یہ ان کے اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے کے اس آئینی حق کی خلاف ورزی ہوگی جو انہیں آئین کی دفعہ 30 کو شامل کرکے دیا گیا ہے۔ اس دفعہ میں یہ التزام ہے کہ تمام اقلیتوں کو، خواہ وہ مذہب کی بناء پر ہو یا زبان کی بنیاد پر، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق حاصل ہے۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کے جواز کو برقرار رکھا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کہی ہے کہ ان کا اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے کا حق،حق قطعی(absolute right)نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ کئی معاملوں میں یہ بات کہہ چکا ہے کہ اس طرح کے التزام کا مقصد اقلیتوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنا تھا۔ ان کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا اور نہ ہے کہ اقلیتیں اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ اے پی کرسچن والے معاملے((1986) 2ایس سی (667 میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ان توضیعات کا مقصد، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، اقلیتوں میں احساس تحفظ پیدا کرنا تھا نہ کہ اسے بنیاد بناکر بے بنیاد باتیں کرنا۔ عدالت کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت کے اس پردے میں جھانک کر یہ دیکھ سکے کہ دراصل کسی اقلیتی ادارے کے پس پردہ کون ہے۔ یہ ادارے صحیح معنوں میں اور حقیقتاً اقلیتوں کے تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں۔ محض مکھوٹہ لگانے سے کوئی ادارہ اقلیتی ادارہ نہیں بن سکتا۔ سپریم کورٹ نے بہت سے معاملوں میں اپنی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے اداروں کا انتظام کرنے کا حق دینے کا یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ انھیں بدنظمی اور بدانتظامی کا حق بھی حاصل ہے۔ فرینک انتھونی پبلک اسکول ایمپلائز ایسوسی ایشن بنام یونین آف انڈیا والے معاملے(1(1987)ایس سی آر238) میں بھی سپریم کورٹ نے یہی فیصلہ دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ بورڈکو اپنی حدود میں رہ کر ہی کام کرنے کی اجازت ہے نہ کہ حد فاصل کو عبور کرنے کی۔ اس کا کہنا ہے کہ بورڈکوکامل و فاضل ڈگریاں تفویض کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ کام یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا ہے۔ سپریم کورٹ نے مدرسہ ایجوکیشن کو ماڈرن ایجوکیشن کے مساوی مانا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اس کے لیے انہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدیدعلوم کی تعلیم بھی حاصل کرنی ہوگی جیسے جغرافیہ،حساب، سائنس وغیرہ تا کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد معقول ملازمت حاصل کر سکیں۔ناقدین کو سپریم کورٹ کے مدارس کی تعلیم کو جدید تعلیم کے مساوی ماننے پر اعتراض ہے۔ فی الحال کسی حد تک یہ بات صحیح ہوسکتی ہے لیکن جب یہ بچے دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی بھی تعلیم حاصل کریں گے تو اس ہدف کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔اب یہ سلسلہ شروع بھی ہوچکاہے اور دینی مدارس سے فار غ التحصیل طلبا جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد آئی اے ایس اور دیگر مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مدرسوںمیں پڑھنے والے لاکھوں طلبا کو فائدہ پہنچے گا اور 13,364طلبا کو،جن کے سروں پر عدم یقینی کی تلوار لٹکی ہوئی تھی،راحت ملے گی لیکن اس فیصلے میں اس تحدیدی شرط سے کہ بورڈ ڈگریاں تفویض نہیں کرسکتا، عوام کی نظر میں بورڈ کی اہمیت کم ہوجائے گی کیونکہ یہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ان طلبا کو یونیورسٹیوں میں کئی جدید مضامین کے کورسز میں داخلہ لینے کا موقع مل جاتا ہے جیسے بی اے،ایم اے، ایل ایل بی وغیرہ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملازمت ملنے کے بہتر مواقع حاصل ہوتے رہتے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مدرسے کے منتظمین، مہتمم اور اساتذہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ معیاری جدید تعلیم کی سہولیات دستیاب ہوں۔
آئیے اب دوسرے تاریخی فیصلے کی بات کرتے ہیں جس کا اطلاق سبھی پر ہوتا ہے۔اس فیصلے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حکومت آئین کی دفعہ 39(ب) کی رو سے سبھی جائیدادوں کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتی۔ اس دفعہ میں یہ التزام ہے کہ قوم کے مادی وسائل کی ملکیت اور ان پر نگرانی کی اس طرح تقسیم ہو جس سے حتی المقدور عام بہبود مقصود ہو مگر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہر نجی جائیداد کو صرف اس بنیاد پر قوم کے مادی وسائل کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا اور نہ اس کا حصول (acquisition)ہو سکتا ہے۔عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں یہ بات کہی ہے کہ وسائل کی نوعیت، ان کی خصوصیات، ان کے معیشت پر اثرات اور ان کی عام بہبود کے نقطۂ نظر سے اہمیت وغیرہ پر غور کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ لیا جاسکتا ہے کہ نجی جائیداد قوم کے مادی وسائل کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS