آئین کی بالادستی سے جڑی ہے جمہوریت کی زیست: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

دہلی کے اندراگاندھی انڈور اسٹیڈیم میں منعقد تحفظ آئین ہند کنونشن میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے آزادی کی جنگ میں جمعیۃ علماء ہند کے کرداراورعلمائے کرام کی قربانیوں کا ذکرکیا اور ملک کی سالمیت،جمہوریت اور آئین کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مزید قربانیاں پیش کرنے کے لیے مستعد رہنے پر زور دیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں علمائے کرام،مدارس اور جمعیۃ علماء ہند کے تاریخی اور مثالی کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یاد دلایاکہ ملک کی آزادی مسلمانوں کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔1832اور1857میں علمائے کرام کے ذریعہ کیے گئے جہاد کے بعد برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان آئی کشیدگی دُور کرنے کے لیے کانگریس کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔علماء ہند کی جدوجہد سے متاثر ہو کر کانگریس نے بعد میں اپنی پالیسی تبدیل کی اورملک کی آزادی کے لیے کام کیا۔اس جدوجہد میں مسلمانوں اور علمائے کرام کو بے انتہا مصیبتیں اور صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ یہاں تک کہ 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوںکے ذریعہ دہلی میں 35 ہزارعلماء اور مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کرکے اُن کی لاشوں کو درختوں کی شاخوں سے لٹکا یا گیا۔اس کے باوجود ہمارے اکابرین نے جھکنا پسند نہیں کیا۔ آج ہم پر انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں۔ موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولاناارشد مدنی نے کہا کہ جب ہم انگریزوں کے جبروتشدد اور ظلم وستم کے سامنے نہیں جھکے تو پھر ہمیں کوئی طاقت کس طرح سرنگوں کرسکتی ہے؟ مسلمان صرف ایک اَﷲ کے سامنے اپنا سر جھکاتا ہے اور اسی کے سامنے جھکاتا رہے گا۔

آج ملک میں فرقہ پرست طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ انہیں ملک میں آگ لگانے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھانت بھانت کے مذہبی ایشوز کو ہوا دے کر فرقہ وارانہ کشیدگی اور اشتعال پیدا کرنے کی منظم کوشش ہورہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام سے لے کر اب تک اپنے اصولوں اوربزرگوں کے بتائے راستے پر چل رہی ہے۔ یہ اصول کچھ اور نہیں،بلکہ پیارومحبت،اتحاد و یکجہتی کے اصول ہیں۔اکابرین کا ماننا تھا کہ ہمارا تعلق خواہ کسی بھی مذہب اور دھرم سے ہو،لیکن ملک کا اتحاد اور اس کی سالمیت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ اتحادو سالمیت تبھی برقرار رہ سکتی ہے، جب ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی وغیرہ کاندھے سے کاندھا ملا کر ایک ساتھ کھڑے ہوں اور ملک کی ترقی کے لیے کام کریں۔ آج سب سے بڑا خطرہ اس سیکولر دستور کو لاحق ہے،جس نے ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور اختیارات دیے ہیں۔اس دستور میں ملک کے اقلیتی طبقے کے لوگوں کو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے ہیں،لیکن آج ان اختیارات کو چھین لینے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس دستور نے ہی ہر شہری کو مذہبی آزادی دی ہے۔اس آئین کے مطابق ہی کوئی بھی شخص اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کے ساتھ اس کی تبلیغ بھی کرسکتا ہے۔اسی دستور نے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کی مکمل آزادی دی ہے۔اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی آزادی ہے تو پھر مذہبی آزادی کہاں ہے؟ کبھی ان مدارس کو بند کرنے کی سازش ہوتی ہے تو کبھی یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔کبھی وقف ترمیمی بل کی بات کی جاتی ہے تو کبھی ہماری وقف املاک کو ہڑپنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ وقف ترمیمی بل اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح کی کوششیں دستور ہند کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ملک میںیک رُخی سیاست کی جا رہی ہے۔ اس نے آئین کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک طرف آئین کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور قصائد پڑھے جاتے ہیں،لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔ آئینی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرکے ملک کی اقلیتوں اور ان میں بالخصوص مسلمانوںکو نت نئے حربوں سے پریشان کیا جا رہا ہے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ ملک پر فسطائیت کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں آئین کا تحفظ اور بقا بہت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میں صرف ہماری ہی نہیں،بلکہ ملک کے آئین اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے اُن تمام شہریوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے تحفظ کے لیے آگے آئیں اور مل کر جدوجہد کریں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہوئی تو پھر جمہوریت بھی زندہ نہیں رہ پائے گی۔ مولانا ارشد مدنی نے آسام شہریت معاملہ، بلڈوزر کی پالیسی،مدارس کے خلاف کارروائی اور ہلدوانی فساد جیسے ایشوزپر دیے گئے عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلوں کا خیرمقدم کیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ لاچار اور بے بس انسانوں کی پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔

دوسری جانب زعفرانی تنظیمیں جمعیۃ علماء ہند پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتی رہتی ہے۔ جمعیۃ پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا لغو،جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگایا جاتا ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند ملک کے اُن بے بس،لاچار اور مجبورلوگوں کو انسانیت کی بنیاد پر قانونی مدد فراہم کرتی ہے،جنہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ انتہائی اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخرایک مخصوص فرقے کے لوگوں کے خلاف ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کیا مذہب کی بنیاد پر انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے؟ یاد رہے کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنا ملک کو کمزور کرنے کے برابر ہے۔ ملک کے اندرونی حالات دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کو مٹا دینا چاہتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا چراغ بجھانے کی کوشش کرنے والے خود مٹ گئے اور یہ چراغ روشن رہا۔ اس موقع پر مرکزی حکومت میں شامل اُن بیساکھیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا،جن کے سہارے حکومت کھڑی ہوئی ہے۔ انتباہ دیاگیا کہ اگر وقف ترمیمی بل منظور ہوجاتا ہے تووہ سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتیں،جو حکومت چلانے میں معین و مددگار ہیں۔اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو ہماری مساجد،مقابر،درگاہیں اور قبرستانوں کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ فرقہ پرست نظریات کی پالیسی ملک کے اتحاد و یکجہتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس پالیسی کے حامی لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پیار و محبت اور اخوت وہمدردی سے ہی ملک زندہ رہ سکتا ہے۔ نفرت اور مذہب کی بنیاد پر کی جانے والی تقسیم ملک کو تباہ و برباد کرسکتی ہے۔ اس کنونشن میں پانچ تجاویز پیش کی گئیں۔پہلی تجویزبسلسلہ حفاظت اوقاف اور وقف ترمیمی بل2024 ہے۔ وقف ایکٹ 2013 اپنے آپ میں انتہائی جامع اور موثر ایکٹ ہے۔اس میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری تجویز بسلسلہ تحفظ آئین ہند ہے۔ اس میں ملک کے اندر فرقہ پرستی کی آندھی چلنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تیسری تجویز بسلسلہ یکساں سول کوڈہے۔اس میں شہریوں کو آئین ہند کی دفعہ25،جس میں ایک طرف ملک میں مذہبی آزادی کی بات کرتی ہے، وہیں دوسری دفعہ30ملک کی ہر اقلیت کو مذہب اور زبان کی بنیاد پر نہ صرف اپنے تعلیمی ادارے بنانے بلکہ اس کے نظم و انتظام کی آزادی بھی دیتی ہے۔ چوتھی تجویز بسلسلہ حفاظت مدارس ہے۔ اس میں مفت اور لازمی تعلیم برائے حق اطفال ایکٹ 2009 کے تحت مدارس اسلامیہ کو بند کرنے کی مہم حکومتی سطح پر چلائی جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2009 مذہبی،اقلیتی اور تعلیمی اداروں پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ پانچویں تجویز بسلسلہ اسرائیلی جارحیت پر مشتمل ہے، اس میں فلسطین میں امریکہ کی پشت پناہی میں جاری اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے ٹھوس اقدامات کیے جانے کی گزارش کی گئی ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS