مشرق وسطیٰ ایک انتہائی خطرناک موڑ پر: صبیح احمد

0

صبیح احمد

ایک سال پہلے اسرائیل اور ایران کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین پر براہ راست حملہ کرنا ناقابل تصور تھا۔ دونوں ممالک نے برسوں سے ایک ’شیڈو وار‘ (پس پردہ جنگ)جاری رکھی تھی، اسرائیل ایرانی جوہری سائنسدانوں، شام میں ایرانی سپلائی قافلوں کو نشانہ بنانے اور اسی طرح کی کارروائی کرتا رہا ہے، جبکہ ایران عسکریت پسند گروپوں کے پراکسی حملوں کی سرپرستی تک محدود رہا، لیکن دونوں ممالک نے کھل کر ایک دوسرے پر براہ راست بمباری کرنے سے گریز کیا۔ اب، جو پہلے ناقابل تصور تھا، افسوس کہ معمول بن گیا ہے۔

ایران نے 13 اپریل کو اس وقت سرخ لکیر عبور کی جب اس نے دمشق میں اسرائیلی فضائی حملے کے جواب میں جس میں ایرانی سفارت خانہ کے احاطے کو نشانہ بنایا گیا اور اسلامی انقلابی گارڈ کور کے 7افسران ہلاک ہوئے تھے، اسرائیل پر 300 کے قریب ڈرون اور میزائل داغے۔ ایران کے اس جوابی حملے کو نہ صرف اسرائیلی فضائی دفاعی نظام بلکہ امریکہ، اردن اور خطہ کے دیگر ممالک نے بھی روکا تھا۔ اس حملے نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو 19 اپریل کو ایران پر ایک کچوکا لگانے والے فضائی حملے سے خود اطمینانی کا موقع دیا۔ حملے کے اس سلسلہ نے یکم اکتوبر کو پھر خود کو دہرایا۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف ایک اور میزائل حملہ کیا۔اس بار تہران میں اسماعیل ہنیہ کے پریشان کن قتل سمیت حزب اللہ اور حماس پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں۔ اس بار ایران نے بیلسٹک میزائلوں کا استعمال کیا جو کروز میزائلوں اور ڈرونس کے مقابلے زیادہ تیز ہوتے ہیں اور پیشگی وارننگ بہت ہی کم دیتے ہیں۔ لیکن ایک بار پھر، امریکہ کے فراہم کردہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے بڑی حد تک کام کیا۔ حالانکہ ایرانی میزائلوں میں سے کچھ نے اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ ضرور بنایا، لیکن مبینہ طور پر نقصان کم ہوا۔

دنیا اپنی سانسیں روکے بیٹھی تھی کہ اسرائیل اس کا کیا جواب دے گا۔ ایک بار پھر صدر بائیڈن نے نیتن یاہو سے اپنے ردعمل کو محدود کرنے کے لیے لابنگ کی اور انہوں نے اپنی پشت پناہی کی یقین دہانی کے طور پر اسرائیل کو میزائل ڈیفنس بیٹری ’تھاڈ‘ (THAAD) بھی بھیجی جسے 100 امریکی فوجی اہلکار ہی چلاسکتے ہیں۔ اس سے ایک پوشیدہ پیغام دیا گیا کہ امریکہ اسرائیل کی حفاظت کرے گا، لیکن بدلے میں اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقائی تنازع کو وسیع نہ کرے۔ 26 اکتوبر کو مشرق وسطیٰ میں ہفتہ کی صبح (ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جمعہ کی رات) بالآخر اسرائیل نے طویل انتظار کے بعد اپنا جوابی حملہ کر ہی دیا۔ اسرائیلی لڑاکا طیارے کامیابی کے ساتھ ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور واضح طور پر ایرانی فضائی دفاع اور میزائل سازی کے مقامات کو نشانہ بنایا۔ بائیڈن انتظامیہ کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے اور اسرائیل کے سخت گیر افراد کی تنقید کو بالائے طاق رکھ کر نیتن یاہو نے ایرانی تیل کی تنصیبات یا جوہری مقامات کو نشانہ نہیں بنایا۔ پردے کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل دونوں نے ایران پر زور دیا کہ اب وہ مزید حملے سے دستبردار ہو جائے اور ’حملے کے جواب میں حملہ‘ کے تحت دشمنی کے موجودہ دور کو ختم کرے۔ لیکن ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے ایک حالیہ بیان سے نہیں لگتا کہ یہ دور جلد ختم ہونے والا ہے، کیونکہ ایران کو اپنی سرپرستی میں کام کرنے والی تنظیموں اور حامیوں کو یقین دلانا ہے کہ انہیں کسی بھی صورت میں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور نفسیاتی طور پر انہیں برتری کا احساس بھی دلانا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پورا خطہ ایک آتش فشاں پر واقع ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر بڑے پیمانے پر پھٹنے سے بچ گیا ہو — لیکن یہ راحت صرف عارضی ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی وسیع جنگ جس کا بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے، پہلے سے ہی یہاں جاری ہے۔ صرف ایک چیز جس کا تعین باقی ہے، وہ ہے اس کی شدت اور وسعت۔ ایرانی فضائی دفاعی ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے ایران کو بہت حد تک کمزور کر دیا ہے۔ اگر ایران ایک بار پھر اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو ممکن ہے کہ جواب میں نیتن یاہو حکومت دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے مزید فیصلہ کن ضرب لگائے۔ اسرائیل اور ایران دونوں کواب یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے کی سرزمین پر براہ راست حملوں کے بعد بھی کسی بڑی جنگ سے بچنا ممکن ہے۔ اور یہ ایک خطرناک مرحلہ ہے۔ خطہ میں مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے بنیادی دباؤ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے آرہا ہے، جو اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ایران آبنائے ہرمز کو خواہ عارضی طور پر ہی سہی، بند کر سکتا ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں تیل کی تنصیبات اور دیگر معتدل عرب ممالک کے ساتھ ساتھ خطہ میں موجود امریکی فوجیوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اگر ایران ایسا کرتا ہے تو اس سے عالمی معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا۔ یہ آخری چیز ہوگی جسے بائیڈن دیکھنا چاہیں گے، خاص طور پر امریکی صدارتی انتخابات کے پس منظر میں۔ لیکن انتخابات کے بعد نتائج جو بھی سامنے آئیں، اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی نئی انتظامیہ کی صلاحیت پہلے جیسے نہیں رہے گی۔ ایک اور ممکنہ فلیش پوائنٹ یمن ہے۔ گزشتہ سال سے حوثی آبنائے باب المندب میں جہاز رانی کو نشانہ بنا رہے ہیں جو بحیرہ احمر کو بحر ہند سے الگ کرتا ہے، اس طرح عالمی تجارت میں خلل پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں جہاز رانی کی حفاظت کے لیے امریکی افواج کو میدان میں اتاراجا رہا ہے۔ امریکہ نے حوثیوں کے ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے والے مقامات پر حملہ کرنے کے لیے بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیارے بھیجے ہیں۔ اس کے باوجود حوثیوں کے حملے جاری ہیں۔

مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ ایک انتہائی خطرناک موڑ پر ہے۔ حماس کو امید تھی کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کرکے وہ ایک بڑی جنگ شروع کر دے گا جو یہودی ریاست کی تباہی کا باعث بنے گی۔ لیکن عرب ملکوں نے فلسطینیوں کا ساتھ حسب توقع نہیں دیا۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ عرب ممالک بالخصوص عرب آبادی فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتی یا ان کا ساتھ دینا نہیں چاہتی۔ وہ اسرائیل کے خلاف ہر محاذ پر فلسطینیوں کے ساتھ ہیں لیکن انہیں اور خاص طور پر حکمراں طبقہ کو مختلف سطحوں پر اپنے مفادات کا بھی خیال ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انہیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی حمایت اور یکجہتی کی بات کرتے ہیں، اور ایسا نہیں کہ یہ جذبات حقیقی نہیں ہیں لیکن وہ پہلے اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہیں۔ عرب ممالک کے عوام کے دل میں غزہ کے تباہ حال شہریوں کے لیے بہت ہمدردی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینیوں کے لیے کچھ کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیں اور کم از کم ردعمل دیتے ہوئے سفارت کاروں کو ان کے ممالک سے نکال دیا جائے۔ لیکن حکومت کی سطح پر اب تک یہ نہیں ہوا۔
بہرحال اسرائیل تباہ ہونے سے تو رہا، لیکن ایک طویل جنگ ضرور شروع ہو گئی ہے۔ اور اسے قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے تمام فریقین کی جانب سے سخت کوششیں کرنا ہوں گی۔ کشیدگی میں کمی کا عمل شروع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ اسرائیل اور حماس آخرکار غزہ میں جنگ بندی پر متفق ہوجائیں – لیکن اس کا امکان فی الحال خواب ہی لگتا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS