نئی دہلی، (یو این آئی): سپریم کورٹ نے منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ 2024 کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا، جس میں ‘اتر پردیش مدرسہ ایکٹ 2004’ کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے انجم قادری اور دیگر کی طرف سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ قانون اتر پردیش میں تعلیم کے معیار کو منظم کرتا ہے۔
بنچ نے کہا ’’تعلیمی اداروں کا نظم و نسق چلانے کا اقلیتوں کا حق مطلق نہیں ہے اور ریاست اس طرح کی تعلیم کے معیار کو ریگولیٹ کرسکتی ہے‘‘۔
بنچ نے قانون کی درستگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدارس کو ریگولیٹ کرے تاکہ وہاں تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ عدالت نے کہا کہ یہ قانون ریاست کو معیارات طے کرنے کے لیے ضابطے بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
تاہم بنچ نے کہا کہ ایکٹ، جس حد تک یہ ‘فاضل’ اور ‘کامل’ کی ڈگریوں کے حوالے سے اعلیٰ تعلیم کو منظم کرتا ہے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) ایکٹ سے متصادم ہے اور کسی حد تک غیر آئینی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 22 اکتوبر کو اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ عدالت نے تب کہا تھا کہ ملک میں مذہبی تعلیم کبھی بھی لعنت نہیں رہی کیونکہ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں وغیرہ کو بھی دستیاب ہے اور ملک کو ثقافتوں، تہذیبوں اور مذاہب کا مرکب ہونا چاہیے۔
"यूपी के मदरसे जैसे चलते थे वैसे ही चलते रहेंगे..", देखिए, राजनीतिक विश्लेषक Sangit Ragi ने इसपर क्या कहा?@peenaz_tyagi | #UPMadarsaAct | #SupremeCourt | #News | #UPNews pic.twitter.com/c1xXZrq9uG
— India TV (@indiatvnews) November 5, 2024