پروفیسر عتیق احمد فاروقی
ملک کے ایک سینئر صحافی رام شرن جوشی کے ذریعہ فراہم کی گئی اطلاع کے مطابق امریکہ میں آج صدارتی انتخابات کے موقع پر بڑے بڑے چناوی پوسٹر اوربینر تو نہیں دکھائی دے رہے ہیں،پر کئی لوگوں کے گھروں کے سامنے، سڑک کے کنارے یاموڑ پر چھوٹے چھوٹے علامتی پوسٹر-بینر نظرآرہے ہیں جو اس بات کا احساس کراتے ہیں کہ دنیا کے سب سے قدیم اور جدید جمہوریت والے ملک امریکہ میں بہت تمیز اورسنجیدگی سے انتخابات ہورہے ہیں۔ امریکہ کے 47ویں صدر کا انتخاب جتنا اصل امریکیوں کیلئے کئی اعتبار سے تاریخی ہے اُتنا ہی چیلنج سے پُر یہ تارکین وطن ہندوستانیوں کیلئے بھی بن چکاہے۔ تقریباً چوبیس کروڑ سے زیادہ امریکی رائے دہندگان ہندوستانی نسل سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس اورریپبلکن امیدوار ڈونالڈٹرمپ کی قسمت کا فیصلہ کل پانچ نومبر کو کریں گے۔ ابھی 59سالہ ہیرس ملک کی نائب صدر ہیں۔ جبکہ 78سالہ ٹرمپ 2016سے 2020تک صدر رہ چکے ہیں۔ اُنہیں گزشتہ انتخابات میں بائیڈن نے شکست دی تھی۔ اب وہ تیسری اورآخری دفعہ قسمت آزمارہے ہیں جبکہ ہیرس پہلی بار صدارتی چناؤ کے لئے میدان میں ہیں۔ یاد رہے کہ مردوں کی بالادستی والے امریکہ میں ابھی تک کوئی بھی خاتون صدر نہیں بن سکی ہے۔ آٹھ سال قبل 2016میں ہیلری کلنٹن نے اس عہدے کو پانے کی کوشش ضرور کی تھی،پر وہ ٹرمپ سے ہارگئی تھیں۔ اس لحاظ سے ہیرس کا صدارتی عہدے کیلئے کھڑا ہونا ایک جرأت مندانہ قدم ہے۔
بیس برس سے امریکہ میں اعلیٰ عہدے پر کام کرہے تمل ناڈو کے کارتکیئن کروناندھی پرجوش انداز میں کہتے ہیں،’کملاہیرس کی فتح سے یہاں ہم ہندوستانیوں کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستانی نسل کی کوئی خاتون امریکی چناؤ میں اس اونچائی تک پہنچی ہے۔‘جہاں تک ٹرمپ کا سوال ہے تو وہ شروع سے ہی مہاجرین کے خلاف رہے ہیں۔دوسرے احمدآباد سے امریکہ آئے آکاش شرما ڈونالڈٹرمپ کے کٹرحامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی جیت سے امریکی قومیت مضبوط ہوگی اورہندوستان پر اس کا اچھا اثر پڑے گا۔ یاد رہے کہ امریکہ میں رہائش پذیر ہندوستانی نسل کے لوگوں کی آبادی پچاس لاکھ سے زیادہ ہے جو کل امریکی آبادی کا قریب 1.35فیصد بنتاہے۔ گوروں کی آبادی 61فیصد اورکالوں کی آبادی 12.6فیصد ہے۔ ویسے درج ہندوستانی نسل کے رائے دہندگان کی تعدادمایوس کن ہے۔ ہندوستانی نسل کے رائے دہندگان ایک فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہیںا ورمنقسم بھی نظر آتے ہیں۔ غیررہائشی ہندوستانیوں، خصوصاً مہاجرین کے من میں آج تک وزیراعظم مودی کا 2019’اب کی بار ٹرمپ سرکار ‘گھوم رہاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دوماہ میں ہندوستان کے دوچوٹی کے لیڈران۔ راہل گاندھی اورنریندرمودی نے امریکی مہاجر ہندوستانیوں کو اپنے اپنے انداز میں لبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہاں مودی کے بھی حامی ہیں اورراہل گاندھی کے تئیں بھی حمایت بڑھ رہی ہے۔ سال 2007ء میں براک اوبامہ کو ملکی سطح پر ابھرتے دیکھاگیا۔ سال 2012ء میں اوبامہ دوسری بار صدر بنے۔ سال 2016میں ہیلری ٹرمپ کامقابلہ بھی دیکھاگیا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں گزشتہ انتخابات میں ہندوستانی طبقہ قریب قریب متحد رہاہے۔ پر اس بار ووٹوں میں تقسیم صاف دِکھ رہی ہے۔
یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ سال 2014ء میں وزیراعظم کے طور پر مودی کی ترقی کے بعد یہاں یقینا مہاجر شناخت میں شدت قوتیت کا پہلو جڑاہے۔ گجراتی فرقوں میں نسبتاً زیادہ تیزی آئی ہے۔ اب اگرمہاجرین میں یہ پیغام پہنچے کہ نریندرمودی ٹرمپ کی حمایت نہیں کررہے ہیںتواین آر آئی کی اکثریت کملاہیرس کے حق میں کھڑی دکھائی دے سکتی ہے۔ اب یہ بات صاف محسوس ہورہی ہے کہ مہاجرین کے بیچ کملا ہیرس کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں مہاجرین پہنچ رہے ہیں۔ یہاںمختلف ذرائع سے پتہ چلاہے کہ کملا ہیرس زیادہ سمجھ دار،کشادہ دل،جمہوریت پسند، لائق حکمراں، نچلے ومتوسط طبقات کے مسائل کو سمجھنے والی، بندوق کلچر کے خلاف، خواتین حقوق کی محافظ اور’اوبامہ کیئر‘کی حامی ہیں۔اِس کے برعکس ڈونالڈٹرمپ کو قدامت پسند جمہوریت کے حامی کھرپ پتیوں کے ساتھی، جمہوریت کے تئیں لاپرواہ، سفید خام لوگوں کی تمام لوگوں پر بالادستی کے حامی اورخواتین کے حقوق کے مخالف کے طور پران کو دیکھاجارہاہے۔ مدعوں کی بنیاد پر بھی یہاں ہندوستانی فرقے کے رائے دہندگان منقسم نظر آتے ہیں۔ ویسے یہاں یہودی، چینی، ہیپی، لاطینی ممالک کے مہاجر طبقات بھی کافی منقسم ہیں۔ پھر بھی مجموعی طور پر امریکہ کے عام ووٹ یامقبول ووٹ میں ہیرس کی جیت پکی مانی جارہی ہے لیکن مشاہدین کی نظرمیں سات ریاستوں (سونگ اسٹیٹس)میں سے دوتین ریاستیں ایسی ہیں جن کے چناوی ووٹ ٹرمپ کوجتاسکتے ہیں۔ سال 2016کے انتخابات میں یہی ہواتھا۔ ملک کے مقبول ووٹوں کی بدولت ٹرمپ صدربن گئے تھے۔ پھرایسے امکانات یا خدشات سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ ٹرمپ جیت کاہر ہتھ کنڈا آزمارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگروہ ہارتے ہیں تو اس کے لیے یہودی ذمہ دار ہوں گے۔ اس پر یہودیوں میں اتفاق نہیں ہے۔ رپورٹ ملی ہے کہ ایک امریکی یہودی کیرین کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی جیت سے پوری دنیا میں ’فاسزم‘کا پیغام جائے گا۔ ہم یہودی ہیں مگر ہم فاسزم کے حامی نہیں ہوسکتے ہیں۔
ویسے دونوں میں سے کوئی بھی جیتے امریکی کردار میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہی دونوں پارٹیوں کا ایک ہی خواب ہے ـ:عظیم امریکہ،امریکی صدر، امریکہ کی بالادستی والا ایک قطبی نظام۔ ہیر س وٹرمپ دونوں ہی امریکی ملک کی موجودہ سیاسی-اقتصادی -تزویری ڈھانچے میں تبدیلی کی جرأت سے بچتے رہیں گے۔ ویسے یہ عام نظریہ ہے کہ کملاہیرس کی جیت سے دنیا میں مکمل جمہوریت مضبوط ہوگی اورمشرقِ وسطیٰ سمیت کچھ خطوں میں دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ خیر امریکہ میں رہائش پذیر سائنسداں ڈاکٹرآتش کامبلے کہتے ہیں کہ کملا ہیرس کو اس لیے جیتنا چاہیے کیونکہ اس وقت بھرپور جمہوریت کی ضرورت پوری دنیا کو ہے۔ حالانکہ ضروری نہیں کہ امریکی رائے دہندگان دنیا کے حساب سے سوچیں، وہ ملک کے مفاد کو سب سے اوپر رکھ کر ووٹ ڈالیں گے۔