اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے امریکہ سب سے بڑا ملک ہے۔ وہاں بننے والی پالیسیوں کے اثرات دنیا پر پڑتے ہیں۔ صدارتی کرسی پر نئے لیڈر کے بیٹھ جانے سے امریکہ کی بنیادی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نہیں آتی، داخلہ پالیسی میں بھی بڑی تبدیلی کا امکان یا اندیشہ کم ہی رہتا ہے، البتہ نئی سوچ کے لیڈر کے صدر بن جانے سے داخلہ یا خارجی پالیسی میںآنے والی چھوٹی سی تبدیلی بھی بڑی تبدیلیوں کے لیے بنیاد بن جاتی ہے، اس لیے امریکہ کے صدارتی انتخابات کے اہم ایشوز کو سمجھنا ضروری ہے، انتخابی نتائج سے وابستہ توقعات اور خدشات کی وجوہات کو بھی جاننا ضروری ہے۔ 5 نومبر، 2024 کو امریکہ میں انتخابی سرگرمیوں پر عالمی برادری کی نظر ہوگی کہ جیت ٹرمپ کی ہوتی ہے یا تاریخ رقم کرنے میں کملا کامیاب ہوتی ہیں، کیونکہ آج تک کسی خاتون لیڈر کو امریکہ کا صدر بننے کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی تھی، ٹرمپ کے مقابلے انہیں زیادہ پاپولر ووٹ ملے تھے لیکن الیکٹورل ووٹ کے حصول میں ٹرمپ نے انہیں کافی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس بار حالات مختلف ہیں۔ کئی معاملوں میں ٹرمپ پر کملا کو برتری حاصل ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ٹرمپ دوسری مدت کار کے لیے صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان کے انداز حکمرانی کو امریکی دیکھ چکے ہیں، ٹرمپ کے مقابلے کملا ہیرس امریکی خواتین میں زیادہ مقبول ہیں، ٹرمپ نے پچھلی مدت صدارت میں یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ امریکہ کو اقتصادی طور پر مستحکم بنانا چاہتے ہیں، جنگ سے ان کی زیادہ دلچسپی نہیں اور اس بار بھی وہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے صدر بننے کے بعد یوکرین اور غزہ جنگ ختم ہو جائے گی جبکہ کملا ہیرس انسانیت کی باتیں تو کرتی رہی ہیں مگر نائب امریکی صدر کی حیثیت سے غزہ جنگ رکوانے میں ان کا رول کیا ہے؟ ڈونالڈ ٹرمپ نے ہمیشہ خود کو اسرائیل کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کملا ہیرس ایسا کرنے کی کوشش نہ بھی کرتیں تو کیا یہ بات نظر انداز کر دی جاتی کہ ان کے شوہر ڈگلس ایم ہاف یہودی ہیں؟
ایک سال پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ بائیڈن مسلسل دوسری مدت کار کے لیے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن غالباً پہلے لوگوں کو اور پھر خود جو بائیڈن کو یہ اندازہ ہوا کہ صدارتی انتخابات میں انہیں حصہ نہیں لینا چاہیے، البتہ یہ کہنا مشکل تھا کہ جو بائیڈن کے ہٹنے کے بعد کملا ہیرس کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار بننے کی راہ آسان ہو جائے گی مگر کملا صدارتی امیدوار بنیں اور ان کی صدارتی مہم کامیاب رہی ہے۔ اسی لیے ٹرمپ سے ان کی کانٹے کی ٹکر بتائی جا رہی ہے بلکہ بڑی کامیابی کے حصول میں اگر وہ کامیاب ہو جاتی ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ضرور بحث طلب موضوع ہے کہ کیا جیت جانے پر کملا ہیرس کے لیے امریکہ کا صدر بن پانا آسان ہوگا؟ امریکہ ضرور ایک جمہوریہ ہے مگر عالمی برادری یہ سمجھ چکی ہے کہ اس کے جمہوری نظام کی حقیقت کیا ہے۔
اس بار کے صدارتی انتخابات میں کئی اہم ایشوز تھے۔ ان میں نہایت اہم تھے- غیر قانونی امیگریشن، غزہ جنگ، اسقاط حمل، مہنگائی، اقتصادیات، جمہوریت، موسمیاتی تبدیلی۔ قانونی امیگریشن کے معاملے میں ٹرمپ کافی سخت ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں ان کے اور کملا کے موقف میں زیادہ فرق نہیں، البتہ ٹرمپ کے صدر بن جانے پر غزہ جنگ ختم ہونے اور اسرائیل سے رشتہ استوار کرنے کے لیے منتظر عرب ممالک کی امید بر آسکتی ہے۔ ٹرمپ اسقاط حمل کے قانون کو سخت بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہ آسان نہ رہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ان بچوں کا حق ہے جو دنیا میں نہیں آئے ہیں جبکہ کملا ہیرس اسقاط حمل کی حمایت میں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’خواتین کو اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ لینے کا حق‘ ہے۔ امریکہ کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اسقاط حمل کے معاملے میں سختی ناقابل فہم ہے، کیونکہ کئی بار قریبی رشتہ داروں کی زیادتی حمل ٹھہرنے کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس ایشو پر خواتین کے کملا کے ساتھ آنے کی امید کی جاتی ہے تو مردوں کا ساتھ ٹرمپ کو ملنے کی امید ہے۔ ٹرمپ کے لیے اقتصادیات ہمیشہ سے اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ان کے صدر بن جانے پر امریکیوں پر مثبت اثرات پڑیں گے مگر یہ بھی طے سا ہے کہ وہ امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ کرکے امریکہ سے بزنس کرنے والوں کے لیے مسئلے پیدا کر دیں گے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مستقبل قریب میں دنیا کی دِشا اور دَشا کیا رہے گی۔