محمد فاروق اعظمی
ہندوستان میں انتخابی عمل میں پیسے کا استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس سے جمہوریت کے بنیادی اصول کمزور ہو رہے ہیں۔ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتیں اور امیدوار مختلف طریقوں سے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض امیدوار ووٹروں کو پیسوں، قیمتی تحائف یا اشیا کے ذریعے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار صرف غریب علاقوں تک محدود نہیں بلکہ شہری علاقوں میں بھی دیکھا جاتا ہے جہاں لوگ مالی یا مادی فوائد کے بدلے اپنا ووٹ دینے پر مجبور یا راغب ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات سرکاری فنڈز کا استعمال اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کے وعدے پورے کرنے کے نام پر یہ کام کیا جاتاہے، تاکہ ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو۔ یہ ترقیاتی کام اکثر انتخابات کے قریب شروع کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کو ان کا احساس زیادہ ہو۔ انتخابی مہم کے دوران کئی علاقوں میں خوراک، کپڑے، موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیا بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے تحائف عوام کو یہ یقین دلانے کیلئے دیے جاتے ہیں کہ امیدوار ان کے مسائل کا حل چاہتا ہے،لیکن اکثر یہ عمل محض ایک سیاسی حربے کے طور پر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بھاری سرمایہ کاری کر کے امیدواروں کی تصویر کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ عوام میں ایک خاص بیانیہ قائم کرنے کیلئے مہنگے اشتہارات اور میڈیا کیمپینز چلائی جاتی ہیں۔یہ رجحان باکل عام ہوچکا ہے اور یہ سمجھاجانے لگا ہے کہ اس کے بغیر انتخابی عمل مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔اس عمل میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں،و ہ بھی اس میںپیش پیش پائی جاتی ہیںجن کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میںاخراجات کی حد کم ہونی چاہیے۔
سیاسی جماعتوں اورامیدواروں کے اس عمل کا نقصان ملک کی جمہوریت اور عوام اٹھاتے ہیں۔ انتخابات کا مقصد یہ ہے کہ عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کریں، مگر پیسوں کی لالچ میں دیانتداری پر مبنی فیصلے دب جاتے ہیں۔ مالی طور پر مضبوط امیدواروں کیلئے انتخابی مہمات میں کامیاب ہونا نسبتاً آسان ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں قابل لیکن مالی طور پر کمزور امیدوار پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایک طرف تو اس عمل سے جمہوری اقدار کمزور پڑجاتی ہیں تو دوسری جانب انتخاب کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم کی واپسی کیلئے منتخب ہونے کے بعد امیدوار کھل کر بدعنوانی کرتے ہیں اور عوامی دولت کی لوٹ کھسوٹ شروع ہوجاتی ہے۔
الیکشن کمیشن انتخاب میں دولت کے استعمال کے خلاف مہم بھی چلاتارہاہے، چھاپے مار کر رقم اور قیمتی سامان ضبط بھی کیے جاتے ہیں مگر اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور نہ ہی رقم کی تقسیم کا سلسلہ رکنے کا نام لیتا ہے۔اس بار بھی مرکزی الیکشن کمشنر راجیو کمار کی طرف سے دی گئی اطلاع کی وجہ سے یہ ازلی تنازع ایک بار پھر کھل کر سامنے آیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے مطابق انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ اور ووٹنگ کے درمیان پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے ضبط کی گئی جائیدادوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت دو ریاستوں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے اب تک 345 کروڑ روپے کے اثاثے ضبط کیے ہیں۔ پھر دونوں ریاستوں میں ووٹنگ میں ابھی دو سے تین ہفتے باقی ہیں۔ اس لیے خدشہ ہے کہ حقیقی ووٹنگ سے یہ تعداد سیکڑوں کروڑسے ہزاروں کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ سنگین بات یہ ہے کہ 2019 کے انتخابات میں یہ تعداد 122 کروڑ 67 لاکھ روپے تھی اور اس بار یہ 345 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس 345 کروڑ روپے میں سے 175 کروڑ روپے کے اثاثے مہاراشٹر اور170کروڑ جھارکھنڈ کے ہیں۔
اگرچہ یہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں لیکن اقتدار کیلئے سیاست دانوں کی طرف سے کھیلے جانے والے پیسے کے کھیل کو دیکھتے ہوئے اسے حیران کن نہیں کہا جا سکتا۔ بنیادی طور پر سیاست داں اقتدار کے حریص ہوچکے ہیںا وراقتدار کیلئے یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ا بھی حال کے دنوں میں ہی یہ خبر گشت کررہی تھی کہ خود کوملک کی بڑی منظم اور اخلاقی اقدار پرعمل پیرا پارٹی کہنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی میں انتخابی ٹکٹوں کی خرید و فروخت کیلئے بڑی بڑی بولیاں لگی تھیں اور ایک ایک ٹکٹ کروڑوں کا بکا تھا۔ اس سلسلے میں کئی ایف آئی آر بھی درج ہوچکی ہیں۔مہاراشٹر او ر جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بھی یہی کہاجارہاہے کہ ٹکٹوں کی بولی لگی ہے اورا ب ووٹوں کی بولی لگائی جارہی ہے۔ مہاراشٹر میں ایک ووٹ کیلئے 5000 روپے کی ’بولی‘ لگائی گئی ہے تو دوسری طرف دہلی والے جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے ہر کام کرنے پر اتارو ہوچکے ہیں۔ریاستی کانگریس کے صدر کو بی جے پی میں شامل کیاگیاتو ہیمنت سورین کے قریبی اور سابق وزیراعلیٰ چمپئی سورین کو شیشہ میںاتار کر پہلے انہیںہیمنت سورین سے بغاوت پر آمادہ کیاگیا اوراب انہیں ان کے جے ایم ایم کے خلاف ایک مضبوط حریف کے سامنے لایا گیا ہے۔یہ ساراعمل غیر قانونی طور پر دولت کے ذریعہ کیاگیا ہے۔اس لیے اس میں حیرانی کی با ت نہیں ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں انتخابات کے دوران ضبط کی گئی رقم 122 کروڑ روپے سے بڑھ کر 375 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ یہ صورتحال ہندوستان میں سیاست کے اخلاقی زوال کی انتہابتارہی ہے جس کا آغازمرکز میں مودی حکومت کے آنے سے ہوا تھا۔
ضرورت ہے کہ انتخابات میں پیسہ کے اس کھیل کو مکمل طور پرختم کیاجائے اور اس کیلئے اصلاحی اقدامات اٹھائے جائیں جن میں انتخابی مہمات میں اخراجات کی حد مقرر کرنے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا قانون بنایاجائے تاکہ کسی بھی امیدوار کے پاس بے جا پیسے کا استعمال نہ ہو۔اس کے ساتھ ہی امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والے اخراجات کی مکمل اور آزاد نگرانی کیلئے ادارہ قائم کیا جائے۔ عوام میں یہ شعور ابھاراجائے کہ وہ پیسے یا تحائف کے لالچ میں اپنا ووٹ نہ دیں،بلکہ دیانتداری، قابلیت اور ملک و قوم کی بہتری کے جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ انتخابات میں پیسے کے بے جا استعمال کو روکنے کیلئے عوام، سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے سب کو اپنااپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے اصلاحی اقدامات اور قوانین کو سختی سے نافذ کرنا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک شفاف، دیانتدار اور حقیقی جمہوری نظام کی طرف بڑھ سکتے ہیں، جہاں نمائندے حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں۔