پروفیسر اسلم جمشید پوری
2024 میں لوک سبھا انتخابات ہو ئے۔مرکز میں این ڈی اے کی سر کا ایک بار پھر بنی۔پھر ہریانہ اور جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔امید کی جا رہی تھی کہ این ڈی اے بالکل صاف ہوجائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ہریانہ میں بی جے پی اور جموں وکشمیر میں ’ انڈیا‘ اتحاد کی حکومت بنی۔ اب مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میںاسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ساتھ ہی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے بائی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں انڈیا، این ڈی اے اور دیگر پارٹیوں کے درمیان مقابلے کو دیکھنا مزے دار ہو گا کہ کس کو شہ ملتی ہے اور کس کو مات۔کون مات کھا کر زخمی شیر بن چکا ہے اور کون شہ کے نشے میں چور ہے۔
اترپردیش میں اسمبلی کا ضمنی الیکشن ہونے والا ہے۔ یہاں 20نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔یوں تو یہاں کئی پارٹیاں الیکشن میں زور لگا رہی ہیں،لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان ہے۔کانگریس جو کامیابی کے رتھ پر سوار ہے، اس نے اپنی پارٹنر سماج وادی پارٹی کے لیے میدان چھوڑ دیا۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس دونوں مل کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کو ہر طرح سے تیار ہیں۔دونوں کی کیمسٹری گل کھلا رہی ہے اور یوپی کا الیکشن دن رات دلچسپ اور عجیب ہوتا جارہا ہے۔اب اصل مقابلہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی میں ہے،یعنی این ڈی اے اور انڈیا آمنے سامنے ہیں۔دونوں گروہ بازی مارنے میں لگے ہیں۔یوپی میں معاملات بہت الگ ہیں۔یہاں بی جے پی کی 2017سے ہی حکومت ہے اور آدتیہ ناتھ یو گی وزیر اعلیٰ ہیں۔2024 کے پارلیمانی الیکشن میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘نے این ڈی اے کو زبردست ٹکر دی تھی۔لہٰذا اس بار بی جے پی زخمی شیر کی مانند ہے،جس نے ضمنی انتخاب کے لیے بہت زور شور سے تیاری کی ہے۔10 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہونے ہیں۔بی جے پی کسی بھی طرح ضمنی انتخاب جیتنا چاہے گی،اس کے لیے اسے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔ابھی بی جے پی نے یوپی کے اکثریتی فرقے کو للکارنے کا کام کیا ہے۔اس نے ایک نعرہ ’’ بٹو گے تو کٹو گے‘‘ دیا ہے۔ یہ نعرہ کتنا خطر ناک ہے۔یہ نعرہ اگر کسی مسلم لیڈر یا پارٹی نے دیا ہوتاتو پورے ملک میں طوفان آجاتا اور بولنے والا سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔الیکشن کمیشن آف انڈیا کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔البتہ سماج وادی پارٹی نے بہت بہتر طور پر اس کا جواب دیا ہے،جس سے بی جے پی حیرت میں ہے۔ایس پی نے جوابی نعرہ ’’جڑو گے تو جیتو گے‘‘ دیا ہے۔اس زبانی جنگ میں کودتے ہو ئے بی ایس پی نے کہا ہے کہ ’’بی ایس پی سے جڑوگے تو جیتوگے اور محفوظ رہو گے۔ ‘‘ وہیں بی ایس پی کہیں بھی مقابلے میں نہیں ہے۔ جوں جوں الیکشن قریب آرہا ہے،ریاست کا ماحول گرماتا جا رہا ہے۔بہرائچ میں فرقہ وارانہ فساد بھی ہوچکا ہے۔این ڈی اے میں شامل کئی پارٹیوں کی ساکھ پر بات بنی ہوئی ہے۔خاص کر نشاد پارٹی اور راشٹریہ لوک دل مقابلے میں شریک ہورہی ہیں۔اب دیکھئے کس کو شہ اور کسے مات ملتی ہے ؟
مہاراشٹر میں 20 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے، مگر وہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔این ڈی اے اور انڈیا ایک دوسرے کو زیرکر نے میں لگے ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے،جو کہ شیوسینا کی حکومت کو توڑ کر وجود میں آئی ہے۔یہاں صرف شیوسینا کو ہی دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ این سی پی کے بھی دو حصے کر دیے گئے۔ دونوں اصلی سیاسی پارٹیوں کے رہنما ادھو ٹھاکرے(شیوسینا) اور شرد پوار ( این سی پی)اپنوں کے دیے زخموں سے کراہ رہے ہیںاور انتقام لینے کے لیے مضطرب ہیں۔شیوسینا (ادھو گروپ) اور این سی پی (پوار گروپ) اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کا بنیادی اور اہم حصہ ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ کانگریس کا ہاتھ بھی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر میں انڈیا اتحاد یعنی مہا اگھاڑی گٹھ بندھن کافی بہتر پوزیشن میں ہے۔ این ڈی اے کے بہت سے بڑے رہنما، شیو سینا (ادھو گروپ)، این سی پی ( پوار گروپ) اور کانگریس کا دامن تھام چکے ہیں۔شیو سینا ( شندے گروپ) کے کئی فیصلے اس کے ہی خلاف پڑگئے ہیں۔شیوا جی مہاراج کی بے عزتی عوام کو یاد ہے۔ این ڈی اے میں شامل کئی پارٹیاں اسے کمزور کرنے پر عمل پیرا ہیں۔ دوسری طرف انڈیا اتحاد روز بہ روز متحد اور مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔مگر بی جے پی واپس حکومت میں آنے کے لیے ’کچھ‘ بھی کرے گی، وہ اتنی آسانی سے مہاراشٹر چھوڑ نے والی نہیں۔ کانگریس کے راہل گاندھی، ملکارجن کھرگے،پون کھیڑا وغیرہ بی جے پی پر لاکھ بدعنوانی اور بدانتظامی یا رشوت کا الزام لگاتے رہیں، ای سی آئی کی کیسی بھی شکایت کرلیں، مگر کچھ ہونے والا نہیں۔کانگریس کے صدر کھرگے نے یہاں تک کہہ دیا کہ مہاراشٹر میں بی جے پی،سب سے بڑی واشنگ مشین کے طور پر کام کر رہی ہے۔یہ بھی ہورہا ہے کہ بی جے پی کے کئی اہم رہنما دیگر پارٹیوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
بات جھارکھنڈ کی ہو تو معاملہ بالکل بر عکس ہے۔ویسے یہاں بھی خاص مقابلہ این ڈی اے اور انڈیا کے مابین ہے۔2019 سے وہاں جے ایم ایم کی سر کار ہے۔جے ایم ایم اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کا اہم رکن ہے۔کانگریس وہاں میدان میں ہے۔ سیٹوں کے بٹوارے کو لے کر ’انڈیا‘ میں کوئی تنازع نہیں جبکہ این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کو لے کر کافی اختلاف ہے۔جنتا دل سیکولر اورجن شکتی پارٹی ( چراغ پاسوان)سیٹوں کی تقسیم کو لے کر بی جے پی سے ناراض ہیں۔بی جے پی نے جھارکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ چمپئی سورین پر فوکس کیا اور انہیں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) سے الگ کرکے ہی مانے،مگر چمپئی سورین کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ وہ نہ گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔ ان کے اپنے بھی جیتنے کے لالے پڑ رہے ہیں۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی نے سوچا تھا کہ ہیمنت سورین کے جیل جانے کا انہیں فائدہ ہوگا،مگر ہوا اس کے برعکس، ہیمنت سورین کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوا۔جیل سے باہر آنے کے بعد ہیمنت نے سابقہ برسوں سے زیادہ کام کیا، عوام کا دل جیتا۔فی الحال این ڈی اے اور انڈیا میں آمنے سامنے کا مقابلہ ہے۔بی جے پی نے اپنے سارے گھوڑے کھول دیے ہیں،اس نے این ا ٓر سی لاگو کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ امت شاہ نے ساتھ ہی وعدہ کیا ہے کہ ہم 300 یونٹ بجلی فری،پانی مفت، تعلیم،بچیوں اور عورتوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔دوسری طرف بی جے پی کے کئی اہم لیڈران جے ایم ایم میں شریک ہوچکے ہیں۔
امید کی جارہی ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو بی جے پی کے مقابلے زیادہ کامیابی ملے گی اور ایک بار پھر ہیمنت سورین یعنی جے ایم ایم کی سرکار بنے گی۔ ریاست میں برسا منڈا کو لے کر بھی سیاست گرم ہے۔برسا منڈا کی150 ویں سالگرہ کے موقع پر بی جے پی نے اپنے اعلامیہ میں 150 نکات لکھے ہیں،جبکہ موجودہ سر کار بہت بڑے پیمانے پر بر سا منڈا کا 150 سالہ یوم پیدائش منانے کا پرو گرام بنا رہی ہے۔
وائناڈ میں پارلیمنٹ کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی ناویا ہری داس سے کانگریس امیدوار پرینکا گا ندھی کا مقابلہ ہے۔دراصل یہاں بھی این ڈی اے اور انڈیا کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔20 نومبر کو وائناڈ میں حقِ رائے دہی کا استعمال ہوگا۔کانگریس نے اپنی پوری طاقت یہاں لگا دی ہے۔راہل گاندھی، ملکارجن کھر گے،پرینکا گاندھی سمیت ایک درجن نیتائوں نے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔بی جے پی کا مقصد پرینکا گاندھی کو کسی طرح ہرا نا ہے۔
وقف بل میں ترمیم کو لے کر پورے ملک کی سیاست کا پارہ بہت اوپر پہنچ چکا ہے۔بی جے پی نے لوک سبھا میں ترمیمی بل پیش کیا تھا،جس پر کافی ہنگامہ ہو گیا تو اسے جے پی سی کے پاس بھیج دیا ہے۔ جے پی سی کی میٹنگوں میں بی جے پی کے ممبران من مانی کر رہے ہیں۔بی جے پی موسم سرما کے اجلاس میں وقف ترمیمی بل کو رکھنا اور پاس کرانا چاہتی ہے۔بی جے پی کا ساتھ نبھانے والی پارٹی ٹی ڈی پی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس بل کی مخالفت میں کام کرے گی۔چراغ پاسوان،نتیش کمار پہلے ہی اس کی مخالفت پر کرچکے ہیں۔اس بل کے چکر میں بی جے پی کی حکومت بھی گر سکتی ہے۔
جموںوکشمیر میں نئی سرکار بنتے ہی وہاں دہشت گردانہ سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔روز وہاں دھماکے،قتل و خون ہورہا ہے۔ہر طرف بد امنی پھیل رہی ہے۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کس کے اشارے پر ہو رہا ہے؟