چار سال کی تاخیر کے بعد مرکزی حکومت نے اگلے سال یعنی 2025 میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ عمل کم از کم ایک سال تک جاری رہے گا اور توقع ہے کہ ڈیٹا کی جانچ، درجہ بندی اور حتمی نتائج کی اشاعت میں مزید ایک سال لگے گا، یعنی یہ کام 2026 تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔ ہندوستان میں پہلی مردم شماری 1872 میں لارڈ میو کی نگرانی میں ہوئی تھی اور آزادی کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی۔ یہ عمل ہر دس سال بعد جاری رہا،آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی۔ قاعدہ کی رو سے 2021میں مردم شماری ہوجانی چاہیے تھی لیکن کووڈ-19 کی وجہ سے 2021 میں یہ پہلی بار ملتوی ہوئی۔ حالانکہ 2022 تک یہ ممکن تھا کہ مردم شماری کرائی جائے لیکن حکومت نے یہ کام نہیں کرایا،جس کی وجہ سے آج حکومت کے پاس کورونا سے مرنے والوں یا بے روزگار افراد کی تعداد کا بھی کوئی درست ڈیٹا نہیں ہے۔ روزگار پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں حکومت بہت ڈھٹائی کے ساتھ یہ اقرار کرتی ہے کہ اس کے پاس اس کے اعداد و شمار نہیں ہیں۔مردم شماری نہ ہوپانے کی وجہ سے تمام جاری اسکیموں میں استفادہ کنندگان یا ضرورت مندوں سے متعلق تمام اعداد و شمار مشکوک ہیں، جس کی وجہ سے سائنسی بنیادوں پر کوئی پروگرام نہیں چل رہا۔ مرکزی حکومت نے 20-2019 میں اقتصادی مردم شماری کرائی تھی لیکن اس کی بنیاد 2011 کا پرانا ڈیٹا تھا۔
اس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑتا رہا،اس میں اس وقت شدت آئی جب کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اس مسئلے کو اجاگر کیا اور ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا۔ان کے اس مطالبہ کی حمایت اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے کی، اس کے ساتھ ہی این ڈی اے میں شامل لوک جن شکتی پارٹی بھی ذات پر مبنی ریزرویشن کے حق میں سامنے آگئی، صورتحال اتنی بگڑی گئی کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا اور سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنادیا کہ مردم شماری میں ذات کا کالم صرف او بی سی اور ایس سی، ایس ٹی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ا ن کی ذیلی ذاتوں کو بھی مردم شماری میں درج کیا جانا چاہیے تاکہ اگر کوئی ریاست ان میں سے کسی ایک ذات اورمخصوص طبقہ کیلئے علیحدہ کوئی اقتصادی پروگرام بنانا چاہے یا کوٹہ کے اندر کوٹہ دینا چاہے تو اسے علیحدہ مردم شماری کی ضرورت نہ پڑے۔
مردم شماری کا مقصد ملک کے معاشی ڈھانچے کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ملک کے معاشی اداروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جو مرکزی یا ریاستی حکومتوں کی مختلف اسکیمیں بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔مردم شماری سماجی ترقی کے بڑے بڑے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔یہ عمل حکومت کو یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ آبادی میں تبدیلیاں کیسے ہو رہی ہیں۔اس کے توسط سے ہجرت، نقل مکانی، عمر و جنس کا تناسب اور تعلیم کی سطح میں ہونے والی تبدیلیوں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پرعوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اقتصادی ترقی کیلئے درست اعداد و شمار بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ مردم شماری سے حاصل کردہ معلومات بجٹ کی تقسیم، سرمایہ کاری کے شعبوں اور سماجی بہبود کی اسکیموں کیلئے استعمال ہوتی ہیں جو کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ مردم شماری کے نتائج کا اثر انتخابات پر بھی ہوتا ہے۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی حد بندی میں یہ اعداد و شمار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مردم شماری کی مدد سے حکومت مختلف ذاتوں اور طبقات کی آبادی کا درست تخمینہ لگا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ریزرویشن، سماجی انصاف اور دیگر متعلقہ اسکیموں کیلئے بہتر فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ معلومات یقینی بناتی ہیں کہ مختلف طبقے کو ان کے حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان سب کے علاوہ قومی اہمیت کا یہ کام عالمی سطح پر ہم آہنگی بھی پیدا کرتا ہے۔دنیا بھر کے ممالک میں مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر مختلف عالمی ادارے مختلف پروگرامز، فنڈز اور امدادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر مردم شماری کی معلومات صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ کسی ملک کی ترقی، معیشت، سماجی انصاف اور سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ ایک شفاف اور درست مردم شماری ملکی ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے اور حکومت کو ایک مضبوط اور متوازن معاشرے کی تشکیل میں مدد فراہم کرتی ہے۔لیکن بی جے پی حکومت قومی اہمیت کے ا س سب سے بڑے کام میں بھی اپنے سیاسی مفاد کی راہ نکال رہی ہے۔سنایہ جا رہا ہے کہ 2026تک مکمل ہونے والا یہ کام غالباً 2028 میں اس وقت پورا ہوگا جب انتخابی حلقوں کی از سر نوحدبندی ہوجائے گی۔گویا یہ فیصلہ عوامی ترقی کے بجائے 2029 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔اگر اس کا م کی یہی ٹائم لائن مقرر ہے تو اس خدشہ سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی سیاسی اور انتخابی حکمت عملی کی بنیاد مردم شماری کے نتائج پر ہی رکھے گی۔لہٰذاعوام کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ قومی اہمیت کے اس بڑے کام میں انتہائی ہوشیار اور چوکنا رہیں نیز درست معلومات فراہم کریں تاکہ نتائج میں کوئی چھیڑ چھاڑ اور من مانی نہ کی جاسکے۔