اس طرح تو کبھی صاف نہیں ہوپائے گی دہلی-این سی آر کی ہوا: اکھلیش آریندو

0

اکھلیش آریندو

دہلی این سی آر میں ایک پھر فضائی آلودگی کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بڑھتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے بنے قوانین سے متعلق مرکز، پنجاب اور ہریانہ کی ریاستی حکومتوں کی کوششوں پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بابت بنے قوانین کسی کام کے نہیں ہیں۔ صاف اور آلودگی سے پاک ماحول میں رہنا سبھی شہریوں کا بنیادی حق ہے اور بنیادی حقوق کا تحفظ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا فریضہ ہے۔ آلودگی کے بڑھتے مسئلہ کی اہم وجوہات میں حد سے زیادہ دو ہفتہ سے ہورہی آتش بازی، کسانوں کے ذریعہ پرالی جلانے، پرسکون ہوا، دھول میں مسلسل اضافہ اور گاڑیوں کا دھواں شامل ہے۔ غور طلب ہے کہ ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ کے مطابق دہلی میں ان دنوں پی ایم 2.5 کی کثافت کی سطح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے رہنما خطوط سے بہت اوپر ہے۔ یہ سالانہ کثافت کے لحاظ سے دنیا بھر کے آلودہ شہروں میں بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس وقت دہلی این سی آر میں ہوا کتنی زہریلی ہوتی جارہی ہے۔

سال کے بارہ مہینے این سی آر والوں کو فضائی و صوتی آلودگی کی خطرناک یا انتہائی خطرناک سطح کے اثر سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ اسے پیش نظر رکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے ہوا کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے، جس کے تحت دہلی میں باہر کی گاڑیوں کے داخل ہونے سے روکنے کے لیے مشرقی و مغربی ایکسپریس-وے کا تعمیر، پٹاخوں کی فروخت پر پابندی، پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو1400کروڑ روپے دستیاب کرانا، این سی آر کو 2600صنعتوں کو پائپڈنیچرل گیس(پی این جی) مہیا کرانا، بدرپوربجلی پلانٹ کو بند کرنا، خطہ راجدھانی دہلی میں 2800اینٹ بھٹوں میں جِنگ-جیگ فراہم کرانے کے ساتھ تعمیراتی اور مسمار کرنے کے بعدکچرے کے انتظام کے قوانین کے آغاز جیسے کئی ٹھوس اقدامات شامل ہیں۔ اس کے باوجود این سی آر میں فضائی آلودگی کا مسئلہ خوفناک شکل میں برقرار رہتا ہے۔ فضائی آلودگی کا یہ مسئلہ کئی اور مسائل کو پیدا کررہا ہے جن میں لوگوں کی عمر میں کمی، نئی نئی بیماریوں سے بے وقت موت اور قدرتی وسائل کا آلودہ ہوتے رہنا، مشہور سیاحتی مقامات کا آلودہ ہونا جیسے مسائل شامل ہیں۔ صوتی آلودگی سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

تہواروں کے موقع پر دھول، مختلف طرح کے کچرے، بجلی کی جھالروں، طرح طرح کے کھلونوں سے دہلی بھری پڑی ہے۔ دہلی کا کوئی ایسا کونہ نہیں جو آلودگی سے پاک ہو۔ دنیا میں آلودگی سے ہونے والا ہر مسئلہ دہلی میں ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی آلودگی کی بھی راجدھانی ہے، پھر بھی دہلی والے آلودگی پھیلانے سے کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ 3.3کروڑ لوگ دہلی میں رہتے ہیں، ان میں سے 99فیصد لوگ کسی نہ کسی شکل میں آلودگی پھیلانے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ آزادی کے 77سال میں آلودگی پھیلانے والے کسی شخص کو بھی شاید سبق دینے والی کوئی سزا دی گئی ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے نظم و نسق نام کی کوئی چیز دہلی میں ہے ہی نہیں۔ سپریم کورٹ نے کتنی بار قانون کے دائرہ میں ہی تہوار منانے کے احکام دیے ہیں، لیکن قانون پر عمل ان مواقع پر کبھی نہیں کیا گیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود دہلی پہلے سے کہیں زیادہ آلودہ ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس محض قانون پر عمل آوری کی رسم ادا کرتی ہے۔ عام آدمی آلودگی کے تئیں حساس نظر ہی نہیں آتا ہے۔ اس لیے حکومت اور عام آدمی دونوں کو ماحولیات کے تئیں انتہائی حساس ہونا ہی ہوگا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے ماحولیات کے مسئلہ کا حل ہونے سے رہا۔

دہلی-این سی آر میں آلودگی کا سب سے خوفناک اثر لوگوں کا نئی نئی بیماریوں سے ہلکان ہونا ہے۔ گزشتہ کچھ سال میں موسم سرما میں لوگوں کا پریشان ہونا اور بڑی تعداد میں لوگوں کی موت ہورہی ہے۔ گزشتہ سال نومبر سے اب تک موسم سرما میں سال کے دوسرے مہینوں کے مقابلہ بڑی تعداد میں لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ دنیا کے سب سے آلودہ شہروں میں دہلی کبھی پہلے تو کبھی دوسرے نمبر پر رہتی ہے۔ کئی بار تو کیو آئی 500کے اعدادوشمار کو پار کرجاتا ہے۔ ظاہری طور پر اس کا اثر صحت پر زبردست طریقہ سے پڑتا ہی ہے۔ 500کیو آئی کا پار جانا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی مقررکردہ حدود سے 100گنا زیادہ ہے۔ دہلی-این سی آر میں 3.3کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ یعنی دنیا کے کئی بڑے ممالک کی آبادی کے برابر۔ سوچا جاسکتا ہے کہ دہلی-این سی آر کی اتنی بڑی آبادی ہر وقت زہریلی گیسوں کو سانس کے ذریعہ اپنے اندر منتقل کرتی ہے۔ اس علاقہ میں رہنا ہے تو اس زہر کو پینا ہی پڑے گا، دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ شکاگو یونیورسٹی کے اینرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دہلی میں ہوا کا انتہائی خطرناک رہنے کی وجہ سے یہاں رہنے والے لوگوں کی زندگی تقریباً 11.9برس کم ہوگئی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں این سی آر کی ہوا کے زہریلے ہونے کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دل، پھیپھڑے، آنت، آنکھ، ہڈی اور جگرسے متعلق بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جسمانی کے ساتھ دماغی صحت پر بھی زبردست اثر پڑا ہے۔ ریسرچ کے مطابق گزشتہ کچھ سال میں دہلی-این سی آر میں رہنے والے بچوں میں یاد رکھنے کی صلاحیت مسلسل کم ہورہی ہے۔ ساتھ ہی حساب کے سوال کرنے میں بھی بچہ پہلے جیسا نہیں ہے۔ ظاہری طور پر بڑھتی آلودگی سے آنے والے وقت میں اور کئی نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر آلودگی سے بچوں کی یادداشت پر اثر پڑرہا ہے تو ملک میں جہاں بھی آلودگی کا مسئلہ بڑھے گا وہاں اس طرح کی مسائل کا بڑھنا لازمی ہے۔

دہلی-این سی آر میں صرف ہوا زہریلی نہیں ہوئی ہے بلکہ پانی، صوتی، مٹی اور روشنی کی آلودگی کے مسائل بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایک امریکی ریسرچ کے مطابق ہندوستان کے بڑے شہروں میں مٹی، پانی اور صوتی آلودگی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دہلی میں جمنا، کانپور، وارانسی اور پریاگ راج میں گنگا اور گجرات و مدھیہ پردیش میں نرمدا کا پانی آلودہ ہوگیا ہے۔ دہلی میں جمنا کا پانی چھونے کے لائق نہیں رہ گیا ہے۔ اس سے آوارہ مویشیوں اور پرندوں میں تمام طرح کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ آئے دن مویشی اور پرندوں کی موت ہوتی نظر آتی ہے۔

نیشنل کینسر رجسٹری پروگرام کے مطابق گزشتہ 30سال میں راجدھانی دہلی میں سب سے زیادہ کینسر کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ریسرچ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 0 سے 14سال کے بچوں میں کینسر کا فیصد0.7سے 3.9کے درمیان ہے۔ غور طلب ہے کہ دہلی کی ہوا میں کاربن مونوآکسائیڈ(سی او)، نائٹرک آکسائیڈ(این او)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ(این او2) اور اوزون(او ٹی ایچ) جیسی گیسیں انسان کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ ان سے بھی خطرناک ایلیمنٹ ہیں الٹرافائن پارٹیکلولیٹ میٹر2.5( پی ایم2.5)۔ پی ایم2.5 موٹرگاڑیوں، بجلی پلانٹوں اور فیکٹریوں، پٹاخوں سے نکلتا ہے۔ اس سے دل اور پھیپھڑوں سے متعلق بیماریاں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ڈاؤن ٹو ارتھ(ڈی ٹی ای) نے اپنی ایک رپورٹ سال 2018سے لے کر سال 2023کے اکتوبر ماہ کے دوران کی گئی25ریسرچ بتاتی ہیں کہ ہندوستان کے بچوں پر فضائی آلودگی کا اثر محض شمالی ہندوستان تک محدود نہیں ہے یعنی دنیا کے تمام بڑے شہر اس کی زد میں ہیں۔ جس کی وجہ سے حاملہ خاتون کے بچوں کی پیدائش کے وقت ان کے وزن میں کمی، وقت سے پہلے زچگی اور مردہ بچوں کی پیدائش جیسی تمام پریشانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں انیمیا میں مبتلا بچے کروڑوں میں ہیں۔ آلودگی کی وجہ سے اینٹی بایوٹک دواؤں کا اثر مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2050تک پوری دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ آلودگی کی وجہ سے فوت ہوجائیں گے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق این سی آر میں جس طرح سے آلودگی خوفناک شکل اختیار کررہی ہے، آنے والے وقت میں بہت بڑے المیہ کی شکل میں سامنے آسکتی ہے۔ این سی آر آنے والے وقت میں ایک زہریلے گیس چیمبر کی شکل میں ہوگا، جہاں لوگوںکا رہنا ناممکن ہوگا۔

جس طرح سے این سی آر میں گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، دھول کا مسئلہ بڑھ رہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والا وقت صحت کے مدنظر بہت خراب ہوگا۔ ایسے میں آلودگی کے مسئلہ سے نجات پانے کے لیے حکومتی دفعات اور عدالتی احکامات کے ساتھ عام آدمی کو سنجیدگی سے اس کے لیے سوچنا ہوگا۔ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال، دھول کو ختم کرنے کے لیے عام آدمی کی شراکت داری اور پرالی سے بڑھتی آلودگی کو روکنے کے لیے این سی آر سے متصل ریاستوں کے کسانوں کو بھی اس مسئلہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کو پانچویں اقتصادی سپرپاور بننا ہے تو آلودگی کے مسئلہ اور اس سے ہونے والی دشواریوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ مرکزی حکومت کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے عوامی بیماری مہم چلانے کی قواعد اور بہتر ڈھنگ سے کرنی ہوںگی۔

(مضمون نگار ماحولیاتی تحفظ سے وابستہ مصنف اور صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS