کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے: صبیح احمد

0

صبیح احمد

کانگریس نے اترپردیش میں آئندہ13 نومبر کو ہونے والا ضمنی اسمبلی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی 9 اسمبلی سیٹوں میں سے کسی پر بھی اس نے اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کو ’سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ‘ کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ سیٹوں کی تقسیم کے وسیع تر انتظامات سے مطابقت رکھتا ہے، جس میں 20 نومبر کو ہونے والے مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ یوپی کانگریس کے سربراہ اجے رائے نے اسے ’گٹھ بندھن دھرم‘ کی پیروی سے تعبیر کیا ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس کا یوپی کے ضمنی انتخابات نہ لڑنے کا فیصلہ 5 اسمبلی سیٹوں پر مقابلہ کرنے کی اس کی تجویز کو مسترد کرنے کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ کچھ سینئر لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ سیٹوں کی تقسیم کے ایک نئے فارمولے کا حصہ ہے جس کے مطابق کانگریس سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو یوپی میں ’فری ہینڈ‘ دے رہی ہے اور اس کے بدلے توقع کرتی ہے کہ مہاراشٹر میںوہ کم سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرے گی تاکہ آئندہ ریاستی اسمبلی انتخابات میں کانگریس یہاں زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرسکے۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی 37 سیٹیں جیت کر اتر پردیش کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ وہیں کانگریس کی سیٹ بھی ایک سے بڑھ کر 6 ہو گئی ہے۔ اس کے بعد یہ مانا جا رہا تھا کہ اتر پردیش کی 9 اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں کانگریس کم از کم 2 سیٹوں پر ضرور مقابلہ کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس نے یوپی ضمنی انتخابات سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس کے اس فیصلے سے اسے فائدہ پہنچے گا یا نقصان، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

کانگریس کے باہر ہو جانے سے اترپردیش میں اب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے درمیان راست مقابلہ کا میدان ہموار ہوگیا ہے۔ ان ضمنی انتخابات کی ایک خاص اہمیت ہے کیونکہ یہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے کچھ مہینوں بعد منعقد ہو رہے ہیں جس میں انڈیا بلاک نے ریاست کی 80 پارلیمانی نشستوں میں سے 43 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ایس پی نے 37 سیٹیں جیتی ہیں جبکہ کانگریس نے 6 پر کامیابی حاصل کی ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی سیٹوں کی تعداد 2019 کی 66 سیٹوں سے گر کر 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں صرف 36 سیٹوں پر آ گئی ہے۔ ان میں سے بی جے پی نے صرف 33 سیٹیں جیتی ہیں۔ لہٰذا ان ضمنی انتخابات سے اس بات کا پتہ چلے گاکہ آیا انڈیا بلاک بالخصوص سماجوادی پارٹی کا 2024 کے عام انتخابات کا جادو اب بھی برقرار ہے یا وہ صرف وقتی تھا۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اور اترپردیش میں 2027 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے یہ وقار کی بھی جنگ ہوگی۔ یہ بھی پتہ چلے گا کہ یوپی میں بی جے پی کی قسمت واقعی خراب ہوگئی ہے یا 2024 کا الیکشن صرف ایک عارضی دور تھا اور یہ کہ مودی-یوگی کی جوڑی اب بھی جیت کی گارنٹی ہے یا نہیں۔

بہرحال جب سے اکھلیش یادو نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ یوپی کی تمام 9 اسمبلی سیٹوں پر سماج وادی پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑے گا، اترپردیش کے سیاسی حلقوں میں طرح طرح کے سوالات گردش کر رہے تھے۔ جن میں ریاست میں کانگریس کے وجود و بقا اور کانگریس کے عروج سے سماجوادی پارٹی کو درپیش خطرات سے متعلق سوالات بھی شامل ہیں۔ حالانکہ 9 اسمبلی حلقوں پر اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے اکھلیش نے اپنی ایکس پوسٹ میں کانگریس کے تئیں بہت ہی ہمدردانہ زبان کا استعمال کیا، لیکن سبھی کو معلوم ہے کہ ضمنی انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں کچھ دنوں تک کیسا ہنگامہ برپا تھا۔ ایسی صورتحال میں کانگریس کے پاس پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ درحقیقت قومی سطح پر خود کو تیزی سے مضبوط کرنے والی کانگریس اترپردیش میں اپنے پرانے بنیادی ووٹروں میں بھی تیزی سے قدم جما رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے ’گمنام‘ امیدواروں کو بھی کثرت سے ووٹ ملے تھے، اسے دیکھ کر اکھلیش کا خوفزدہ ہونا فطری ہی لگتا ہے۔ اترپردیش میں کانگریس ایک سوئے ہوئے شیر کی طرح ہے جو اگر بیدار ہوگئی تو سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جیسی سیاسی پارٹیوں کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔

لوک سبھا انتخابات سے پہلے بھی اکھلیش یادو نے کانگریس کے ساتھ سیٹ شیئرنگ کے لیے وہی حکمت عملی اپنائی تھی جو کچھ دنوں سے وہ اسمبلی ضمنی انتخابات میں سیٹ شیئرنگ کے لیے کر رہے تھے۔ اکھلیش یادو کانگریس کی رضامندی لیے بغیر اپنی طرف سے پارٹی امیدواروں کا اعلان کرتے رہے اور باقی ماندہ سیٹوں کے لیے کانگریس کا نام تجویز کیا۔ ایسا ہی انہوں نے لوک سبھا انتخابات کیلئے کیا تھا۔ امیٹھی اور رائے بریلی کو چھوڑ کر لوک سبھا کی کوئی بھی ایسی سیٹ کانگریس کو نہیں دی گئی جہاں کانگریس یا خود سماج وادی پارٹی جیتنے کی پوزیشن میں ہو۔ ایسی ہی کل 17 سیٹیں دی گئیں، جن میں سے ایک وزیراعظم مودی کی سیٹ وارانسی بھی تھی، جہاں سے شکست پہلے ہی طے تھی۔ اس کے باوجود کانگریس نے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور 6 سیٹیں بہت کم فرق سے جیتنے سے رہ گئی۔ بانسگاؤں حلقہ میں کانگریس امیدوار سدل پرساد کو صرف 3150 ووٹوں سے شکست کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔ اس طرح کل 17 میں سے 12 سیٹوں پر کانگریس کی کارکردگی بہت شاندار رہی تھی۔ امیٹھی میں اسمرتی ایرانی 167000 ووٹوں کے بڑے فرق سے ہار گئی تھیں۔ یہ شکست یوں ہی نہیں تھی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ کانگریس کو ہر طبقے سے ووٹ ملے تھے۔اسی طرح راہل گاندھی نے بھی یوپی حکومت کے وزیر دنیش پرتاپ سنگھ کو رائے بریلی میں تقریباً 290,000 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ سیتا پور، بارہ بنکی، سہارنپور اور پریاگ راج میں کانگریس کی جیت شاندار رہی۔ شاید خود اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کو بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ کانگریس کو اس طرح کی کامیابی ملے گی۔ 2014 اور 2019 کے مقابلے یوپی میں کانگریس کا ووٹ فیصد بھی بہتر رہا۔

ظاہر ہے کہ اکھلیش یادو کو اب یہ خطرہ ستانے لگا ہوگا کہ یوپی میں کانگریس دوبارہ اپنے قدم جماسکتی ہے۔ ان کا ایسا سوچنا فطری ہے کیونکہ یوپی میں آج سماج وادی پارٹی جس زمین پر کھڑی ہے وہ کانگریس کے نیچے سے ہی چھینی گئی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں یہ سامنے آیا کہ دلت اور مسلم ووٹر دوبارہ کانگریس کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ یہ فیڈ بیک اکھلیش یادو کے پاس بھی گیا ہوگا۔ اکھلیش جس پی ڈی اے کی بات کرتے ہیں، اس میں دلتوں اور اقلیتوں کو کیا وہ کانگریس کی گود میں جاتے یوں ہی دیکھتے رہیں گے؟ اکھلیش نے کانگریس کیلئے غازی آباد اور کھیر کی سیٹیں چھوڑ رکھی تھیں۔ اتر پردیش کی سیاست کو سمجھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ دونوں سیٹیں کانگریس ہی نہیں، سماج وادی پارٹی بھی نہیں جیت سکتی تھیں۔ کانگریس کا المیہ یہ ہے کہ اس کا ووٹ بینک جن پارٹیوں نے چھینا، اب انہی پارٹیوں پر اس کا انحصار ہے۔ جموں و کشمیر، اترپردیش، بنگال، اوڈیشہ، مہاراشٹر، تمل ناڈو، بہار جیسی ریاستوں میں اسے بے دخل کرنے والی پارٹی بی جے پی نہیں، بلکہ وہی علاقائی پارٹیاں ہیں جن کے ساتھ اس نے آج ہاتھ ملایا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کانگریس نے جان بوجھ کر ضمنی انتخابات کی سیٹیں چھوڑ دی ہیں۔ دراصل کانگریس اکھلیش یادو کو بھی آئینہ دکھانا چاہتی ہے۔ اکھلیش یادو کی پرواز کو کنٹرول کرنے کے لیے شاید یہ ضروری تھا۔ اگر کانگریس ضمنی انتخابات میں اکھلیش یادو کی حمایت نہیں کرے تو سماج وادی پارٹی کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کانگریس کے سامنے مخمصہ یہ ہے کہ اسے قومی سیاست میں ایس پی کی حمایت کی ضرورت ہے اور اسے اتر پردیش میں سیاسی زمین بھی چاہیے۔ کانگریس نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم میدان سے ہٹ گئے ہیں، اب سماجوادی پارٹی تمام سیٹیں جیت کر دکھائے۔ اگر نتائج سماجوادی پارٹی کے حق میں نہیں آئے تو کانگریس یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوگی کہ لوک سبھا انتخابات ایک ساتھ لڑنے سے نتائج بہتر رہے اور اس بار کانگریس نے الیکشن نہیں لڑا تو ووٹ بکھر گئے۔ لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی کو ملنے والے دلت ووٹوں میں کانگریس کا بھی اچھا خاصہ حصہ تھا۔ اب دلت اور مسلمان دونوں اپنی اصل پارٹی کانگریس کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ ساتھ اگر کانگریس کے امیدوار بھی کھڑے ہوتے ہیں تو مسلمانوں اور دلتوں کے آدھے سے زیادہ ووٹ کانگریس کی طرف جائیں گے۔ یہی بات اکھلیش کے لیے پریشان کن ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS