ہند-پاک تعلقات: بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی : پروفیسر عتیق احمدفاروقی

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی

وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد میں دہشت گردی کو نشانہ پر لے کر جو واضح پیغام دیاہے وہ خوشگوار اورقابل استقبال ہے۔ پاکستان میں ’شنگھائی تعاون تنظیم ‘(ایس سی او ) کونسل کے ریاست کے سربراہان کے 23ویں جلسے میں وزیرخارجہ نے تعمیر وترقی کیلئے حقیقی شراکت داری ، امن اوراستحکام کی اہمیت پر پرزورروشنی ڈالی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کااثر تجارت ،توانائی کی پہنچ اورابلاغ رابطہ پر پڑتاہے۔ اگرہم یہ دیکھیں کہ ہندوستان اورپاکستان کے درمیان بات چیت کیوں بند ہے تواس کی بنیادی وجہ سیاسی مبصرین دہشت گردی ہی بتاتے ہیں، لیکن میرا مانناہے کہ موجودہ تناظرمیں اب پاکستان سے مذاکرہ ممکن ہے۔ موجودہ حکومت کو مستقل مزاجی کے ساتھ اس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوناہوگا۔ جوہری ملک ہونے کے باوجود آج پاکستان کے حالات ایسے بالکل نہیں ہیں کہ وہ ہندوستان جیسے طاقتور ملک کو چیلنج کرسکے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ جہاں تک دہشت گرد ی کا سوال ہے کشمیرمیں ہندوستانی فوج اورپیرا ملیٹری فورسز کو چاق وچوبند رہنے کی ضرورت ہے۔

اب پاکستانی حکومت اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ اپنی زمین سے کشمیرمیں دہشت گردی کو بڑھاوادے۔ اب پاکستان اپنے ملک کے اندر خود اس مسئلے سے جوجھ رہاہے۔ اکثرپاکستانی زمین پر داخلی طور پر یا افغانستان سے آئے ہوئے دہشت گرد تشدد برپاکررہے ہیں۔ اب پاکستانی ملیٹری یا آئی ایس آئی ملک کے اندر کی بدامنی کوروکنے میں اپنی توانائی صرف کررہی ہے۔ موجودہ حکمراں نواز شریف وزرداری اب ہندوستان سے مختلف مسئلوں کا پرامن تصفیہ چاہتے ہیں۔ دوسرا سب سے ضروری نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اب ہندوستان سے دشمنی رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ انہوںنے ہندوستان سے قریب 75برس دشمنی کا نتیجہ دیکھ لیاہے۔ وہ اب ہندوستان سے امن چاہتے ہیں ۔ ہمارے ملک کیلئے حقیقی خطرہ چین ہے۔امریکہ اورکناڈہ امکانی خطرہ ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل چین کے کردار کا اگرجائزہ لیاجائے تو جنوبی ایشیاء میں تاناشاہی اوردہشت گردی دونوں کے تئیں وہ قطعی سنجیدہ یا ایماندار نہیںہے۔ اس تنظیم میں بھی وہ ہندوستان کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اپنے مفاد پر نظررکھتاہے۔ اگرچین سے دوطرفہ تعلقات پر غور کیاجائے تو مایوسی ہی ہوگی ۔ زیادہ نہیں چند سالوں سے چین نے ہندوستان کے ساتھ جو سلوک کیاہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس نے ہماری اچھی خاصی زمین پر قبضہ کرکے اپنے گاؤں بسالیے ہیں۔ گلوان میں ہمارے چالیس جوانوں کو بے دردی سے شہید کردیاہے اروناچل پردیش جیسے ہمارے علاقے کو وہ اپنے ملک کے نقشہ میں دکھاتاہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے مالی ،تجارتی اورسفارتی تعلقات چین کے ساتھ اب بھی قائم ہیں۔ ان سب کے باوجود اگرچین کے ساتھ ہم مذاکرہ جاری رکھ سکتے ہیں توپاکستان کے ساتھ کیوں نہیں ؟پاکستان اورچین کی قربت ہمارے مفاد میں بالکل نہیں ہے۔ کیوں نہ ہم پاکستان کو اپنے قریب لاکر اس قربت سے شگاف بندکردیں۔

جب دنیا کے تمام ممالک اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں تب ہندوستان کو بھی اپنامفاد دیکھناچاہیے۔ مختلف قطبوں میں تقسیم دنیا میں ہندوستان کی آواز کو پوری طرح سے سنانہیں جارہاہے۔ اس کی وجہ ہے کہ ہم اپنی روایتی ناوابستہ پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے اس کے تقریباً بارہ سولوگوں کا قتل کردیا توہمارے وزیراعظم نے اس کو نہ صرف دہشت گرد تنظیم کا نام دیا بلکہ صرف حماس کی مذمت کی اور اسرائیل کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ چلئے ٹھیک ہے بے گناہ شہریوں کا قتل نہیں ہوناچاہیے تھا، لیکن جب اسرائیل نے جواب میںتقریباً پیتالیس ہزار فلسطینیوں کا بے دردی سے قتل کرکے (جس میں 95فیصد نہتے بے گناہ شہری تھے)نسل کشی کی نئی مثال قائم کی۔ تواسرائیلی حکمرانوں کی نہ تو مذمت کی اورنہ ہی انہیںدہشت گرد قرار دیا۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اسرائیل سے ہرسطح پر سارے تعلقات ختم کردیں اوربین الاقوامی سطح پر اسے علاحدہ کرادیں۔ آج ہمارے وزیراعظم کی حیثیت ایسی ہے کہ وہ امریکہ ومغربی ممالک پر دباؤ ڈالکر اسرائیل کو جنگ بندی کیلئے تیار کرسکتے تھے ۔ یقینا اس سے ’وشوگرو‘کی ان کی شبیہ کو تقویت پہنچتی۔اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ خارجہ پالیسی پر باریکی سے نظرثانی کریں اورمغربی ایشیاء اورروس -یوکرین جنگ کو روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر دباؤ ڈالیں۔ تقریباً نوسالوں میں یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان کے وزیرخارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جہاں وہ پاکستانی لیڈران کے ساتھ رسمی استقبالیہ میں تو شریک ہوئے، لیکن الگ سے انہوں نے کوئی ملاقات نہیں کی۔ پاکستان کی طرف سے متعدد بار کوشش ہوئی ہے کہ ہندوستانی لیڈر کے ساتھ الگ سے بات چیت ہوجائے ،تجارت پر نہ سہی ،موسم پر ہی ہوجائے ، لیکن ہمارا ملک اس کیلئے ابھی تیار نہیں ہے مگر موجودہ صورت حال میں ہمارے حکمرانوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

آخر چین ہمارا پاکستان سے بڑا دشمن ہے ۔ روس کے قازان شہر میں 23؍اکتوبر کو وزیراعظم نریندرمودی نے ’برکس ‘سربراہی اجلاس سے الگ سے الگ چینی صدر رشی جن پنگ کے ساتھ دوطرفہ ملاقات کی اورمیٹنگ میں دونوں لیڈران نے سرحدی مسئلے پر تنازعات اوراختلافات کو مناسب طریقے سے نمٹانے اور امن میں خلل نہ ڈالنے کی اہمیت پر زوردیا اوراس معاملے پر جلد ہی خصوصی نمائندہ سطح کی میٹنگ بلانے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم کا یہ قدم بالکل جائز ہے اورہمارے ملک کے مفاد میں ہے۔ اسی نظریہ سے ہمیں پاکستان سے تعلق بحال کرنے کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ اگرامریکہ اورویتنام جنگ کو ہم یاد کریں تو اُس دورمیں بھی ان دونوں ممالک کے بیچ مذاکرہ بند نہیں ہواتھا جسے سیاسی مبصرین نے’ ٹاک-فائٹ ‘پالیسی کانام دیاتھا۔
2015 میں ہندوستان نے پاکستان سے دوطرفہ مسئلوں پر بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہوگئی۔ پلوامہ حملہ اورکشمیر ریاست کی دومرکز کے زیراہتمام علاقوں میں تقسیم اوردفعہ 370اور35Aکی منسوخی کے بعد دونوں ممالک نے تجارتی رابطے ختم کرلئے اورساتھ ہی اپنے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلالیے۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی چوٹی کانفرنس میں میزبان کا کردار نبھایاتھااوروہاں کے وزیراعظم شہباز شریف اوردوسرے وزرا ء نے اس موقع پر ہندوستان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے نہ تو کسی دوطرفہ مسئلے کو اٹھایا اورنہ ہندوستان کے خلاف کوئی بات کہی۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمراں اوریہاں تک کہ سابق وزیراعظم عمران خاں، جنہوں نے اپنی حلف برداری کے موقع پر ہندوستانی کرکٹرس کو مدعو کیاتھا ، اب ہندوستان سے خوشگوار تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ ہاں یہ بات ماننی ہوگی کہ اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کا فوجی کیڈرہے جوشروع سے پاکستانی سیاست میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حاوی رہاہے۔ وہاں کے عوام بھی ہندوستان سے خوشگوار تعلقات رکھناچاہتے ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 1965اور1971کی جنگوں کے علاوہ ہمارے ملک میں1999 کی کارگل میں دراندازی ، 2016کی پٹھان کوٹ کی دہشت گردی اور2019ء کے پلوامہ حملے کا زخم ابھی بھرا نہیں ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ ہند-پاک تعلقات کی دوبارہ شروعات اورعوامی سطح پر دونوں ممالک کے بیچ رابطہ آپسی تناؤ اورجنگ کے خطرے کو کم کریں گے۔ اس سے علاقائی استحکام پیدا ہوگا۔ تجارت کی بحالی خدمات اورصنعتی شعبہ میں ملازمت پیدا کرنے کے لحاظ سے دونوں ممالک کو زبردست اقتصادی فائدہ حاصل کرے۔ اپنے مغربی پڑوسی سے 77سال سے چلے آرہے جھگڑے ہندوستان کے لئے مستقل کوفت بنے ہوئے ہیں جو اس کے بین الاقوامی قد اوروقار کو متاثرکرتے ہیں۔ ہندوپاک دوطرفہ رابطہ ہندوستان کی ’وشوگرو‘یا ’وشومتر‘کی شبیہ میں زبردست اضافہ ہوگاا وراس کے عالمی طاقت بننے کی جستجو کوقوت بخشے گا۔ علاقائی سلامتی کے تناظرمیں اگردیکھاجائے تو پرامن رشتہ فوجی تعیناتی اوراستعمال کو کم کردے گا اوراس سے ملک کے دفعہ میں بھی کم خرچ ہوگا۔ ہمیں ایماندارانہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ اعتماد کی کمی ، دوستی اوراچھے ہمسایوں کے اصولوں میں کوئی کمی ہے توخود احتسابی کرنی چاہیے۔ یہ اصول تمام عالم پر نافذ ہوناچاہیے۔ دنیا کثیرقطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمگیریت اورتوازن ایسی حقیقتیں ہیں جن سے فرار ممکن نہیں ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS