یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی نے ہندوستان کے ایک اخبار کو انٹرویو دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو ’ہم جنگ کے خلاف ہیں‘سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’آپ غیر جانب دار نہیں رہ سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ روس کے ساتھ ہیں، کیونکہ حملہ کرنے والے اور مظلوم کو ایک نظریے سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روس کو خفیہ حمایت ہے۔‘ ان باتوں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ زیلنسکی پریشان ہیں۔ بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ فروری 2022 سے جاری جنگ کس طرف جا رہی ہے مگر انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر ضرورت کے وقت میں روس نے ہندوستان کا ساتھ دیا ہے، اس کے باوجود ہندوستان کا یہ کہنا کہ ’ہم جنگ کے خلاف ہیں‘ بڑی بات ہے۔ اتنا کہنے کی جرأت ہندوستان کے علاوہ کس ملک نے کی ہے؟
پڑوسی اگر طاقتور ہو تو اس کی طاقت کو نظراندازکرکے دوستی کا اظہار کرنے والے طاقتور ملکوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ دو طاقتور ممالک اپنے مفاد کے لیے تولڑتے رہے ہیں، نسبتاًکسی کمزور ملک کے لیے کسی طاقتور ملک کو ٹکراتے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ کیا یہ باتیں سمجھنے کی ضرورت یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے کبھی محسوس کی؟ اگر محسوس کر لیتے اور اسی مناسبت سے فیصلے لیتے، اقدامات کرتے تو کیا جنگ ہوتی؟ زیلنسکی یہ دیکھ چکے تھے کہ 2014 میں روس نے جب یوکرین پر حملہ کیا تھا تو امریکہ اوراس کے اتحادی طاقتور یوروپی ممالک یوکرین کی سالمیت برقرار رکھنے میں ناکام رہے تھے۔ کریمیا کو روس نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ ایسی صورت میں زیلنسکی کو یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ روس نے اگر یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ دی تو امریکہ اور اس کے اتحادی طاقتور یوروپی ممالک اس کا کس حد تک ساتھ دیں گے لیکن جب روسی صدر ولادیمیر پوتن بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ناٹو کی روس کی سرحد تک توسیع برداشت نہیں کریں گے تو یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کو یہ یقین انہیں دلانے کی جدوجہد کرنی چاہیے تھی کہ یوکرین،روس کا پڑوسی ہے اور اچھے پڑوسی کی طرح ہی رہے گا، اس کے مفاد کے خلاف کام نہیں کرے گا مگر وہ روس کو یقین نہیں دلاسکے اور اس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔
اس کے باوجود جنگ بندی اور قیام امن کے لیے گنجائش نکالی جا سکتی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے لیے روسی حکومت اگر مذاکرات کی میزپر آنے کے لیے تیار نہ ہوتی تو اس پر یوکرینی حکومت کو عالمی دباؤ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر ولودومیر زیلنسکی وہی کرتے رہے جو امریکہ اور طاقتور یوروپی ممالک یوکرین سے چاہتے تھے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی طاقتور یوروپی ممالک نے روس کو اقتصادی طور پر خستہ حال بنانے، اسے عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اسی کوشش کے تحت اس پر پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ دوسری طرف وہ مسلسل یوکرین کی مدد کرتے رہے۔ یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ یوکرین کے ساتھ ہیں۔ کئی لیڈروں نے یوکرین کا دورہ کیا۔ ان میں امریکہ اور جاپان کے لیڈران شامل ہیں۔ اس وقت یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی خود کو اچھی پوزیشن میں محسوس کر رہے تھے تو ان کی باتوں میں جھنجھلاہٹ کم نظر آتی تھی۔ غزہ جنگ کے بعد حالات بدل گئے۔ امریکہ اور یوروپی ممالک ترجیحی بنیاد پر اسرائیل کی مدد کرنے لگے۔ یوکرین کی مدد میں کافی کمی کر دی گئی۔ اس سے یہ ہوا کہ روس کی پوزیشن بہتر ہونے لگی۔ یہ بات زیلنسکی کی سمجھ میں آنے لگی کہ حالات بدلنے لگے ہیں۔ پھر برکس کے سربراہ اجلاس نے بھی یہ اشارہ دے دیا کہ روس کو دنیا بھر کے ممالک سے الگ تھلگ کرنے کی باتیں بس باتیں ہی ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دنیا کے اہم ممالک آج بھی روس کو ایک طاقتور ملک مانتے ہیں، اس کے دائرۂ اثر سے واقف ہیں، یہ جانتے ہیں کہ روس کے مستحکم رہتے دنیا کو یک محوری بنائے رکھنے کی امریکہ کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی کی جھنجھلاہٹ ناقابل فہم نہیں ہے مگر انہیں جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے وقت اپنی غلطیوں پر پہلے توجہ دینی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں چین نے اگر تائیوان پر اور شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا، امریکہ اور اس کے اتحادی طاقتور یوروپی ممالک اسرائیل کے ساتھ ان دونوں ملکوں کی مدد پر بھی زیادہ توجہ دینے لگے تو یوکرین کیا کرے گا؟ اس وقت کے آنے سے پہلے یوکرینی صدر زیلنسکی کو خود کسی فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ امن کا راستہ تلاش کرنے سے ہی امن قائم ہوتا ہے اور امن کا راستہ اسے ہی تلاش کرنا پڑتا ہے جسے امن کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے!