ایم اے کنول جعفری
اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہریانہ کے گزشتہ اسمبلی انتخاب کی ریلی میں ہندوؤں کو ذاتوں میں تقسیم کرنے کی سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’بنٹیںگے! تو کٹیں گے!!‘ حالاں کہ اس جملے میں مکمل کہانی پنہاں تھی،لیکن لوگوں نے اسے ووٹوں کے پولرائزیشن کا ہتھکنڈہ بتاکر نظرانداز کردیا تھا۔ اَب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اس سلگتے نعرے پر اپنی حمایت کی مہر ثبت کرکے ہندوؤں کو اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا پیغام دیا۔آر ایس ایس کے ذریعہ اس نعرے کو لپک لینے سے یہ بات آئینہ کی طرح صاف ہوگئی کہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کل(ماضی) جو کچھ کہا تھا،اس کے کچھ معنی تھے،آج(حال) بھی ہیں اور شاید کل(مستقبل) بھی رہیں گے۔آر ایس ایس نے اسے زندگی کا ’منتر‘بتاتے ہوئے ہندو اتحاد اور عوامی بہبود کے لیے لازمی قراردیا۔
25اکتوبر سے متھرامیں منعقد ہونے والے 10 روزہ تربیتی کیمپ کے پہلے 2 روز میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ’ آل انڈیاایگزیکٹیو بورڈ‘ کی سالانہ میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں گائے کے گاؤں ’پر کھم‘ میں واقع دین دیال اُپادھیائے گائے سائنس،ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر میں اجلاس کے اختتام پر اخباری نمائندوں اورصحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنگھ کے ’ سرکاریہ واہ‘ دتاتریہ ہوسبلے نے ہندوؤں کو توڑنے کے لیے کئی طاقتوں کے سرگرم رہنے کا حوالہ دیتے ہوئے قومی مفاد میں ہندوؤںسے متحد ہونے کو کہا۔ اگر مستقبل میں پسماندہ، ذات پات اور زبان وغیرہ میں فرق کریں گے،توہم کٹیں گے۔یوگی کے ’بنٹیں گے،تو کٹیں گے‘،بیان میں پنہاں جذبے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہندو سماج متحد نہیں رہے گا تونقصان اُٹھانا پڑے گا۔ ہوسبلے نے ’ہندو بھاؤ کو جب جب بھولے، آئی وپد مہان؍ بھائی چھوٹے، دھرتی کھوئی،مٹے دھرم سنستھان‘، گیت کے ذریعہ اتحاد اور یکجہتی کا مطلب سمجھایا۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں ہوسبلے نے کہا کہ کئی مقامات پر’لوجہاد‘ اور تبدیلیٔ مذہب کے معاملے اور گنیش پوجا اور درگا پوجا کے دوران حملے ہو رہے ہیں۔اس صورت حال سے نمٹنے اور تحفظ کے لیے زبان، ذات پات،علاقائی اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرکے متحد ہونا پڑے گا۔معاشرے میں نظم و ضبط، ملک کے لیے فرض شناسی اور مقصد پر مبنی ہونے کی خوبیاں لازمی ہیں۔ کیرالہ میں ’لوجہاد‘ کے تحت مذہب تبدیل کرنے والی 200 لڑکیوں کو بچانے میں کامیابی حاصل کی۔ ان لڑکیوں کومعاشرہ کیسے قبول کرے گا؟ شادی کیسے ہوگی ؟جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔مقامی تنظیم نے مدد کی۔ آر ایس ایس کی شاخوں میں اضافے کے ساتھ ملک کے متعدد حلقوں میں 72,354شاخیں چل رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے26اگست کو جنم اشٹمی کے روز آگرہ میں ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ جب ہم ایک رہیں گے تو نیک رہیں گے اور محفوظ رہیں گے۔’بنٹیں گے،تو کٹیں گے‘۔ سماج،ذات پات اور زبان کے نام پر تقسیم کرنے والوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔بنگلہ دیش میں اندرونی بدامنی کی مثال دیتے ہوئے یوگی نے کہا تھا کہ لوگوں کو بنگلہ دیش کے حالات سے سبق لینا چاہیے۔ اس بیان پر کافی ہنگامہ ہوا اور برسراقتدار جماعت پر دہشت پھیلانے کا الزام لگا۔ اس کے باوجود بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے سیاسی پروگراموں میں اس نعرے کو دہرایا۔ بی جے پی کے ترجمان سدھانشوترویدی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’بنٹیں گے، تو کٹیں گے‘، کوئی نعرہ نہیں،بلکہ صدیوں کی سچائی ہے۔یہ معاملہ صرف انتخابات میں جیت یا ہار تک محدود نہیں ہے۔جہاں ہندو کمزور ہوئے،وہ علاقہ ملک سے کٹ گیا۔ 22اکتوبر کو ممبئی کے مختلف علاقوں میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تصویر اور نعرے’بنٹیں گے،تو کٹیں گے‘کے پوسٹر لگائے گئے۔ ان میں نعرے کے نیچے ’ایک رہیں گے،تو نیک رہیں گے،محفوظ رہیں گے‘ بھی لکھا ہے۔ بی جے پی کے رکن وشوبندھورائے کا کہنا ہے کہ شمالی ہندوستان کے لوگ یوگی اور ان کے نعرے ’بنٹیں گے،تو کٹیں گے‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کے ہتھکنڈوں کا ہریانہ کی طرز پر جواب دینے کے لیے اسے مہاراشٹر میں بھی نافذ کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر موہن بھاگوت نے سنگھ کے ایجنڈے کی وضاحت میں کہا کہ ہمیں ’ہندوتو‘ کے معاملے پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت تو ہے ہی، سنگھ کے خیالات کوہر مذہب کے ماننے اور ہر فرقے سے تعلق رکھنے والوں تک پہنچانا بھی ہے۔ میٹنگ میں لوجہاد، تبدیلیٔ مذہب اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت زار پر غوروخوض کے علاوہ حاضرین سے متحد رہنے کا عہد بھی لیا گیا۔ سنگھ کے عہدے داروں اور اہل کاروں کو مارچ 2025 تک 1,13,105 مقامات پر نئی شاخیں قائم کرنے کا ہدف دیاگیا۔میٹنگ میں 46ریاستوں کے386 صوبائی اور شریک صوبائی سنگھ چالک اور پرچارکوں نے شرکت کی۔ اگلے برس دسہرہ تک ہر گاؤں میں سنگھ کی شاخ قائم کرنے کے ہدف کے علاوہ تمام طبقات کے لوگوں تک سنگھ کی پہنچ بنانے،’لوجہاد‘ و’تبدیلیٔ مذہب‘ جیسے اہم مسائل پر پینی نظر رکھنے اور سب سے بڑے ہدف کے طور پر اترپردیش کے 97ہزارسے زیادہ گاؤوں میں سنگھ کی 100 فیصد موجودگی درج کرانے کا فیصلہ لیا گیا۔ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے 4اجلاسوں میں علاقہ اور ریاستی مہم چلانے والوں کے ساتھ میٹنگ میں پنچ پریورتن کے تحت سودیشی،ماحولیاتی تحفظ، شہری فرض، خاندانی روشن خیالی اور سماجی ہم آہنگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سنگھ کے ایجنڈے کو زمین پر اتارنے کی ذمہ داری ان ہی پر ہے۔انہیں دسہرہ تک ہندوؤں کو منظم اور بااختیار کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، تاکہ بیرونی طاقتوں کو قوم کی شبیہ خراب کرنے سے روکا اور تحفظ فراہم کرایا جاسکے۔ یہ اہل کار گھر گھر جاکر سنگھ کی مشعل روشن کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ یہ تمام تر تیاریاں کس کے موافق اور کس کے خلاف کی جا رہی ہیں؟بنٹنے کا خطرہ کسے ہے؟ اگربنٹنے کا خطرہ ہندوؤں کو ہے، تو کس سے ہے؟ اور کیوں ہے؟ 2023 میں ہندوستان کی آبادی 1,43,80,69,596 تھی،جو2024 میں بڑھ کر 1,45,50,97,350 ہوگئی۔ 2011کی آبادی کی بات کریںتو ہندوستان میں 79.8فیصد ہندو، 14.2 فیصد مسلمان، 2.38 فیصد عیسائی اور1.7فیصد سکھ ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے زعفرانی تنظیم آر ایس ایس کی معاون تنظیمیں بی جے پی،اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، بھارتیہ کسان سنگھ، وشو ہندو پریشد، بھارتیہ مزدور سنگھ، راشٹریہ شیکشک مہاسنگھ، سیوا بھارتی، سنسکار بھارتی، دین دیال شودھ سنستھان، ونواسی کلیان آشرم، بھارتیہ شکشن منڈل، لگھوادیوگ بھارتی،اتہاس سنکلن سمیتی وغیرہ ہندوؤں کو مسلمانوں کا خوف دکھاکر متحد کرنے میں لگی ہیں۔اس وقت ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو اب تک کے سب سے زیادہ نازک دورکا سامنا ہے۔زعفرانی تنظیموں کو آخر کس سے خوف اور خطرہ ہے؟ کیا اُن مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں، جن کی مساجد، مدارس، خانقاہیں اور قبرستان تک محفوظ نہیں ہیں؟کیا اُن مسلمانوں کی دہشت سے، جن کے گھروں کو زمیں بوس کرنے کے لیے بلڈوزوں کی جماعت ہمہ وقت تیارکھڑی رہتی ہے؟کیا اُن مسلمانوںسے خطرہ ہے، جو ماب لنچنگ کی وارداتوں سے اپنے گھروں، راستوں، بازاروں، دکانوں، ہوٹلوں، اسکولوں،بسوں اور ٹرینوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خود36فرقوں میں بنٹے مسلمان،اکثریت کو کیسے تقسیم کرسکتے ہیں؟ یہ بات بھی قطعی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ غریبی، مہنگائی، بے روزگاری اور روزمرہ کی ضروریات کا درد جھیلنے والے تعلیمی، اقتصادی، ذہنی، جسمانی اور رُوحانی طور پربے حدکمزور مسلمان اپنے مقابلے 5.71گنا ہندوؤں کوکس طرح تقسیم کرکے اُن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں؟اکثریتی طبقے کے لوگوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور کھلے ذہن سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ہندوستان پر تقریباً800برس حکومت کرنے والے طاقتورمسلمان بادشاہ و شہنشاہ ہندوستان کے لوگوں کے لیے خطرہ نہیں تھے تو آج بے یارومددگار اور ڈرے سہمے مسلمان صدیوں سے ساتھ رہتے آرہے ہندو بھائیو ں کو کس طرح بانٹ اور کاٹ سکتے ہیں؟
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]