پروفیسر اسلم جمشید پوری
ہماری خارجہ پالیسی بہت زمانے سے امن و امان قائم کرنے والی رہی ہے۔ہندوستان نے آزادی کے بعد سے ہی ’عدم تشدد‘ کو اپنی خارجہ حکمت عملی کا حصہ بنا رکھا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس کا ہمیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے۔ مگر ہمارے پڑوسی ممالک کو ہمارے عدم تشدد کو ہماری کمزوری سمجھنے کی غلطی نہیں کر نی چاہیے۔ہندوستان نے کبھی اپنے کسی پڑوسی ملک پر بلاوجہ حملہ نہیں کیا،لیکن جب جب اس پر جنگ تھوپی گئی ہے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے۔دشمن کے دانت کھٹے کیے گئے۔زمانہ اس بات کا گواہ ہے۔ہندوستان ظالم و جابر نہیں،ہر ممکن جنگ سے احتراز کرتاہے،لیکن ہندوستان بزدل اور کمزور نہیں،امن و امان اس کا مقصد رہاہے۔
ہندوستان کا دفاعی بجٹ2024-25کے لیے 621,940.85کروڑ ہے جو کہ جی ڈپی پی کا2.4 فی صد ہے۔اس بار گزشتہ بجٹ کے تناسب میں4.78فی صد کا اضافہ ہے۔ہندوستان کی تینوں فوجیں آرمی،نیوی،ایئر فورس،دنیا کی چوتھے نمبر کی افواج ہیں۔ہندوستان بہت سارے اسلحہ جات اور ہوائی جہاز،ہیلی کاپٹر،میزائل وغیرہ خود بناتا ہے۔افواج کی طاقت اور نئے نئے ہتھیاروں کی نمائش ہر سال یوم جمہوریہ کے موقع پر کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں اس کا عملی نمونہ ہم نے پاکستان کے ساتھ کارگل جنگ،ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ اور سرجیکل اسٹرائک کے وقت دیکھا۔اس لیے دنیا کا کوئی ملک ہمیں کم آنکنے کی غلطی نہ کرے۔خواہ امریکہ ہو،چین یا پاکستان ہو۔یوکرین اور فلسطین کا معاملہ مختلف ہے۔روس نے یوکرین پر حملہ یہ سوچ کر کیا تھا کہ یوکرین ایک چھوٹا ملک ہے،وہ اس کے سامنے ایک ہفتہ بھی نہیں ٹک پائے گا۔غرور کسی کا نہیں رہتا۔ آج یوکرین پر روس کے حملے کو تقریباً ڈیڑھ سال ہونے کو آئے ہیں اور جنگ ختم نہیں ہورہی ہے۔فتح کسی کے حصے میں نہیں آرہی ہے۔یہی معاملہ اسرائیل اور فلسطین کا بھی ہے۔فلسطین ہر طرح سے اسرائیل سے کمزور اور ناتواں ہے،پھر بھی وہ ہارنے کو تیار نہیں ہے۔جنگ پھیلتی جا رہی ہے۔ ایران، لبنان اور دوسرے ممالک بھی اب کھل کر فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں سامنے آرہے ہیں۔
ایسے میں ہندوستان کا رول بہت اہم ہو جاتا ہے۔ اسرائیل اور روس، ہندوستان کے دوست ہیں۔ہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہندوستان نے اسرائیل کی حمایت کی مگر وہ ایک عارضی بات تھی۔ہم کسی ظالم کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ہندوستان ظلم کو برا سمجھتا ہے،اسی لیے دنیا کے زیادہ تر ممالک ہندوستان کی ثالثی کو تیار رہتے ہیں۔یو کرین اور روس کے درمیان جنگ شروع ہوئی تھی،ہندوستان کے طلبا سے بھری بسوں کونکلنے کا راستہ دونوں ملکوں نے دیااور تمام جنگوں میں ہندوستانی شہری محفوظ اپنے وطن واپس ہوئے۔
پڑوسی ملک پاکستان سے ہندوستان کے تعلقات ٹھیک نہیں چل رہے ہیں۔پاکستان میں انتخابات ہوئے۔امید تھی کہ شہباز شریف کی حکومت گر جائے گی اور عمران خان پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے،مگر ایسا نہیں ہوا۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کشمیر پر ہے،جبکہ کشمیر کا ایک حصہ ہندوستان اور ایک حصہ پاکستان کے پاس ہے۔پاکستان اکثر عالمی سطح پر ہندوستان کے کشمیر پر آواز اٹھاتا رہا ہے،جبکہ ہندوستان بھی،پاکستان کے قبضے والے کشمیر کی بات کرتا رہا ہے۔اس لیے ہندوستان اور پاکستان کے مابین ہمیشہ تنائو بنا رہتا ہے۔برسوں بعد ہندوستانی وزیر برائے خارجہ امور جے شنکر پاکستان گئے۔وہاں جے شنکر نے پاکستانی حکومت کے سامنے صاف صاف بات کی۔یوں بھی پاکستان ہم پر زبانی اور دہشت گردانہ حملے کر چکا ہے،لیکن ہر بار اسے منھ کی کھانی پڑی ہے۔
دوسری طرف چین ہے،یہ بھی اندرخانے ہندوستان کا دشمن ہے۔یہی پاکستان کی ہندوستان کے خلاف مدد بھی کرتا رہتا ہے۔ہمارے سرحدی علاقوں میں ہمیشہ پیش قدمی کرتا رہتا ہے۔کئی بار چین سے ہمارے تعلقات کی کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ایسے میں ہندوستان چین کے سامان، ایپ اور الیکٹرانک مشینوں پر پابندی لگاتا رہا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدرشی جن پنگ کے درمیان رسہ کشی رہی ہے۔دراصل چین ہم سے ہر معاملے میں آگے ہے،مگر جنگیں تعداد سے نہیں، ہمت اور اتحاد سے جیتی جاتی ہیں۔ہندوستان آبادی کے لحاظ سے چین سے آگے نکل گیا ہے۔دوسرے بہت سے معاملات میں بھی ہندوستان بہت پیچھے نہیں ہے،بلکہ تقریباً برابر سا ہے۔چین فوجی طاقت میں ہم سے اکیس ضرور ہوگا لیکن چین کو ہماری طاقت کا بھی اندازہ ہے،اسی لیے حالات کتنے ہی خراب ہوں،چین کبھی حملہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا،کیوں کہ ہندوستان ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے۔
’برکس ‘کے2024 کے اجتماع میں جہاں بہت سارے ممالک شریک ہوئے،وہیں سب کی نظریں چین کے صدراور ہندوستان کے وزیراعظم کی ملاقات اور گفتگو پر تھیں۔بالآخر برکس کے جلسے میں دونوں رہنمائوں کی ملاقات ہوئی اور بات چیت بھی ہوئی۔ویسے تو برکس کا یہ اجتماع بہت دنوں بعد منعقد ہوا تھا۔اس کا اہتمام روس کے شہر قازان میں ہوا،جس میں متعدد ملکوں نے شرکت کی۔چین اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہیں،لیکن پاکستان آج تک ’برکس ‘ کا ممبر نہیں بن سکا۔ دراصل 2009 میں ’’برکس‘‘ نامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ ہندوستان، روس، چین اوربرازیل، اس کے بانی ممبران ہیں۔بعد میں سائوتھ افریقہ اس کا ممبر بنا اور اب ایران، مصر، ایتھوپیا، شارجہ پہلی بار اس تنظیم میں شریک ہوئے۔یہ ایک اہم عالمی تنظیم ہے، جو اپنے یہاں دہشت گردی کو پنپنے نہیں دیتی۔یہ سب مل کر دنیا کی30 فیصد زمین اور 45 فیصد آبادی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔اس گروپ سے امریکہ اور یوروپ کے بڑے ممالک بھی گھبراتے ہیں۔اس تنظیم کا مقصد دنیا میں امن وامان کا قیام بھی ہے۔
ہو سکتا ہے روس میں منعقد ہ اس ’ سمٹ‘ سے ایشیا میں امن و امان قائم ہو۔روس جو خود ایک جنگ میں ملوث ہے،بہت جلد یوکرین سے جنگ بندی پر راضی ہو جائے گا۔ان تمام ممالک کو روس-یوکرین اوراسرائیل- فلسطین کی جنگ میں سمجھوتے کی پہل کرنی چاہیے۔مگر دنیا کا کوئی ملک اخلاقی دبائو یا مشورے کو نہیں مانتا۔جنگ کو اپنی انا مان لیتا ہے۔ جبکہ آج کے دور میں کوئی کسی کا غلام نہیں،سب آزاد ہیں اور جینے کا حق رکھتے ہیں۔ ادھر اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے جنگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔مسلم ممالک اس حملے سے اندر خانہ سلگ رہے ہیں۔ایسے میں ہندوستان کا کردار کافی اہم ہوجاتا ہے۔دنیا میں امن و امان قائم کرنے میں ہندوستان آگے آ ئے اور نہ صرف روس اور یوکرین کے درمیان مفاہمت کراکے امن کرائے بلکہ اسرائیل، فلسطین، لبنان، ایران کے درمیان صلح کرائے اور جنگ بندی میں مثبت رول نبھائے۔ ویسے ہندوستان عدم تشدد پر یقین رکھتا ہے اور امن و امان کی فضا بنانے کے لیے مشہور ہے۔یہ سب اس کی خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔