ڈاکٹر محمد سعید اللہ ندوی
اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کوبیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے غرض ر شتے بناکر اللہ تعالی نے ان کے حقوق مقر ر فرمادیے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے اسی وجہ سے ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہی کامیابی مضمر ہے۔ ماں باپ ہر ایک کیلئے انمول رہتے ہیں ، ان کی خدمت اور دل جوئی اولاد پر لازم ہے۔حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اوران کی خدمت کرنے کی بڑی تاکید قرآن مجید وحدیث میں آئی ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر والدین کے حقوق کاذکر آیا ہے۔ان میں اکثر مقامات ایسے ہیں جن میں اللہ کی توحید وعبادت اوروالدین کی خدمت واطاعت کوایک ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ والدین بہت ہی محنت ومشقت سے اس وقت اولاد کی پرورش کرتے ہیں جس وقت انہیں اپنے سے کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کی تعظیم اور ان کی خدمت کریں، خاص طور پر جب والدین بیمار یا بوڑھے ہوجائیں تواس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔والدین کی اطاعت میں ہی کامیابی کاراز مضمرہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اورباپ جنت کادروازہ ہے۔ ہرمخلوق اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتی ہے، چاہے وہ انسان ہویا جنات حیوان ہو یا پرندہ ہو یا چرندہ بچے کاپہلا مکتب ماں کی گود ہے۔ وہ اولاد کی پیدائش سے پہلے بھی تکلیف اٹھاتی ہے اوربعد میں بھی۔ ہمارے اور آپ پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ والدین کادل کبھی نہ دکھائیں کیونکہ ماں کے منہ سے نکلی ہوئی دعا قبول ہوجاتی ہے تو خدا کی بارگاہ میں ان کی بددعابھی نہیں ٹالی جاتی ہے۔ والدین سے جب بھی گفتگو کرو تو نرم لہجے میں بہت سے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ والدین کو خاموش کردیتے ہیں اور خود چیخ چیخ کربولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’تمہارے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم صرف ایک خدا کی عبادت کرو اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘ان میں سے ایک یادونوں تمہاری موجودگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں توانہیں اف بھی نہ کہو اور نہ جھڑکو ان سے ادب سے بات کرواوران کے آگے شفقت کے ساتھ عاجزی کا بازو جھکادو اوران کے لیے دعا کرو کہ:’’اے میرے رب ان دونوں پررحم فرما جس طرح بچپن میں انہوں نے مجھ پررحم فرمایا‘‘ والدین کی دعاؤں میں ہی انسان کی کامیابی کاراز چھپا ہوا ہے۔ جس شخص کے والدین اپنی اولاد سے خوش ہیں تو سمجھو کہ اس کی دنیا بن گئی اورآخرت بھی سنور گئی۔ اگروالدین ناراض ہوں تو دنیا بھی ہاتھ سے چلی گئی اور آخرت میں بھی خسارے کاسودا ہوگا۔ والدین وہ مشفق ہستی ہے جس کے بارے میں ہمارے پیارے نبیؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اورباپ جنت کادروازہ ہے۔ اگر تم والدین کی فرمانبرداری کرو گے تو یقینا خداوند کریم تمہیں جنت سے نوازے گا۔ ماں وہ ہستی ہے جس کا اب تک دنیا میں کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے۔والدین کی اطاعت وفرمانبرداری سب رشتہ داری یہاں تک کہ اپنی بیوی یاشوہر اوربچوں سے بھی مقدم ہے۔ماں کی خدمت گذاری اور اطاعت سے ہی جنت کی راہ ملتی ہے۔ جس سے ماں خوش ہو وہ ہر مصیبت سے کوسو ں دور ہوتا ہے اورہر کامیابی دستک دیتی ہے کی چوکھٹ پر ماں کی خدمت میں جنت کی ضمانت ہے۔
کامیابی اور خوشنودی کی کنجی ماں کی فرمانبرداری میں ہے اور جس نے بھی ماں کا احترام کیااللہ کے فرمان کااحترام کیا ماں کاپیار دنیا کے تمام دکھوں، غموں، رنجشوں اورمصیبتوں کیلئے ایک بہتراورعظیم نسخہ نجات ہے۔ ماں جب اپنے بچے کے لیے دعا کرتی ہے تو ماں کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہے اس لیے ماں کی دعا جلد ہی قبول ہوتی ہے۔ والدین نے اگراولاد کی تربیت اچھی کی ہے تو ایک نعمت ہے ورنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولادکے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اوران کو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کے حقوق میں کوتاہیوں سے بچا جائے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ لہٰذاجن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک باحیات ہے تو ان کو اللہ کی نایاب نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔والدین کے گزرنے کے بعد ان کے ساتھ اب حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے،ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے ،ان کی طرف سے صدقہ کرے ، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے ،کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے،مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانانِ رسول کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے،والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، نفلی اعمال کر کے ان کے لیے ایصالِ ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ ان کی خبرگیری کرے، اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین