ڈاکٹر جاوید عالم خان
مضمون نگار نے اس اخبار کیلئے گزشتہ دنوں دو قسطوں میں ’’وکست بھارت، مسلمان اور ملی قیادت‘‘کے عنوان سے مضمون لکھا تھا جس میں آزادی کے بعد ملک میں جو سماجی، تعلیمی اور اقتصادی بدلاؤ رونما ہوئے ہیں، ان پر اور ملک کی موجودہ صورتحال پر بھی خیالات کا اظہار کیا گیا۔ ان دونوں مضامین میں پیش کیے گئے تجزیے سے یہ نکل کر آیا کہ اس وقت موجودہ برسراقتدار پارٹی اور اس سے جڑی ہوئی فرقہ پرست تنظیمیں 2024 کے بعد ملک کو ایک نئے بھارت کی طرف لے جانے کی کوشش کررہی ہیں، وہ2047 تک کے دور کو نیا ہندوستان، امرت کال اور وکست بھارت کا نام دے رہی ہیں۔
موجودہ حکومت کا وکست بھارت کا پروجیکٹ 2014 سے دیے گئے مختلف نعروں جیسے ’اچھے دن‘اور ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘کی ایک توسیع ہے۔ کئی ماہرین معاشیات اور خود مضمون نگار کی دلیل یہ ہے کہ وکست بھارت کے مقاصد کی تکمیل ملک کی21فیصد اقلیتوں اور25فیصد دلتوں و قبائلیوں کو ترقی کے عمل سے الگ تھلگ کرکے نہیں کی جاسکتی۔ وہیں فرقہ پرستی، فسادات، بلڈوزر، ماب لنچنگ جیسے حالات میں کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی ممکن نہیں ہے۔ عام انتخابات سے پہلے وزیراعظم کے ذریعے اقلیتوں کے خلاف نفرت سے بھرے بیانات اور اس کے بعد لوک سبھا میں وقف بل کو پیش کرکے یہ ثابت کیا جاچکاہے کہ موجودہ حکومت اور فرقہ پرست تنظیمیں اقلیتوں کے خلاف آنے والے دنوں میں اپنی مہم جاری رکھیں گی۔ مستقبل میں وکست بھارت کی مہم یا نعرہ اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ہورہی ناانصافیوں پرصرف پردہ ڈالنے کا کام کرے گا۔
وکست بھارت سے متعلق کئی ماہر معاشیات اور سیاسیات کی رائے یہ ہے کہ اس مہم کا مقصد ملک کے قدرتی، انسانی اور مالی وسائل کو کچھ چنندہ کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو سونپنے کی ایک سازش ہے۔ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً لوک سبھا اور اس کے باہر آواز بھی اٹھائی اور ان چنندہ کمپنیوں کے مالکان کا نام بھی لیا۔ اس کے علاوہ عالمی تنظیموں اور ماہر معاشیات نے بھی اپنی کئی ریسرچ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ معاشی غیربرابری ملک میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کئی سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کے ذریعے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملک کے اندر زیادہ تر حکومتی ادارے آئین کے حساب سے اپنا کام نہیں کر رہے ہیں، ان اداروں میں پارلیمنٹ، قانون ساز اسمبلی، عدلیہ، پولیس اور الیکشن کمیشن جیسے بڑے اداروں کے کردار پر سیاسی جماعتیں سوال اٹھا رہی ہیں اور یہ کہہ رہی ہیں کہ موجودہ برسراقتدار پارٹی ملک کے اندر جمہوریت کو کمزور کررہی ہے اور ہرممکن کوشش کررہی ہے کہ تمام حکومتی اداروں میں ایک ہی نظریے کے لوگ پوری طرح سے قابض ہوجائیں اور ان کے اس عمل سے جمہوریت کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان لگ جائے۔حالیہ دنوں میں ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا پروپیگنڈہ بھی اسی سمت میں ایک نیا قدم ہے۔
ماہر سیاسیات ڈاکٹر منظور علی کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ برسراقتدار پارٹی کے ساتھ کام کرنے والی تنظیموں کا وکست بھارت کے پیچھے اصلی ایجنڈا یہ ہے کہ اس ملک کو 1200سال پیچھے دھکیل دیا جائے جہاں پر برہمن نظریات سے جڑی ہوئی طاقتوں کا ثقافت، علم، حکومتی طاقت اور معاشی نظام پر پوری طرح سے قبضہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے حساب سے وکست بھارت کا پروجیکٹ مستقبل میں دلت، قبائلی، او بی سی اور اقلیتوں کو ثقافتی، تعلیمی اور معاشی طور سے پسماندگی کی طرف لے جائے گا لیکن ظاہری طور پر ان کے اس مشن کا اصلی نشانہ ہندوستانی مسلمان ہوگا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی صورتحال میں مسلمان یا ملی تنظیمیں اور سیکولر سول سوسائٹی اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کریں۔ کئی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت فرقہ پرست طاقتوں سے لڑنے کیلئے مضبوط سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم کے تحت تمام سیکولر ذہن رکھنے والی تنظیموں کو بھی اس پلیٹ فارم میں شامل ہوناچاہیے۔ لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ مشترکہ پلیٹ فارم کن مسائل پر کام کرے گا۔ ملک کے اندر بے روزگاری، مہنگائی، معاشی غیر برابری، وسائل پر کارپوریٹ کا کنٹرول، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات اور عورتوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی ہورہی ہے، اس کے تعلق سے یہ مشترکہ پلیٹ فارم کام کرسکتا ہے۔حالیہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اپوزیشن پارٹیوں نے ان مسائل کو اٹھا کر کامیابی حاصل کی تھی اور موجودہ برسراقتدار پارٹی کو اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم کو چلانے کیلئے بالترتیب او بی سی، دلت، قبائلی اور اقلیتی طبقہ سے جڑے ہوئے افراد اور تنظیموں کو آگے آنا چاہیے اور یہ مشترکہ پلیٹ فارم دہلی سے لے کر ہر ایک گرام پنچایت اور وارڈ حلقے تک کام کرے۔اسی طرح سے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقلیتی طبقے کے تمام گروہوں کو ایک ساتھ آنا چاہیے اور مشترکہ پلیٹ فارم بنانا چاہیے، خاص طور سے سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف فرقہ پرست تنظیمیں اور حکومت کوئی نا کوئی مسئلہ وقتاً فوقتاً چھیڑتی رہتی ہیں۔
چونکہ موجودہ حکومت اور فرقہ پرست طاقتوں کا اصل نشانہ مسلمانوں کو مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر نقصان پہنچانا ہے، اس لیے مسلم تنظیموں کو ایک متحدہ اور مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ جہاں تک مسلم کمیونٹی کی لیڈرشپ کا معاملہ ہے تو یہ ابھی بھی مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ قومی سطح پر مسلمانوں کے پاس کوئی فعال پلیٹ فارم یا وفاق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے زیر قیادت سیاسی پارٹیاں کچھ صوبوں تک ہی محدود ہیں جبکہ مسلمانوں میں مسلکی اور نظریاتی بنیاد پر کام کرنے والی ملی جماعتوں کے کام کرنے کا دائرہ قومی سطح پر ہے اور ان کے دفاتر دہلی، صوبائی اور ضلعی سطحوں پر موجود ہیں۔
عام طور پر یہ دیکھا جارہا ہے کہ قومی سطح پر کام کرنے والی ان ملی جماعتوں کے درمیان موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے آپس میں کوئی خاص ربط اور کوآرڈی نیشن نہیں ہے اور یہ تنظیمیں علیحدہ طور پر کام کررہی ہیں۔ اگرچہ ملی تنظیموں کا ایک وفاق بھی موجود ہے مگر وہ کئی وجوہات کی بنا پر مذہبی تنظیموں اور مسلم عوام کے درمیان اپنا اعتماد کھو چکا ہے اور اس نازک صورتحال میں مسلم عوام ان جماعتوں اور وفاق کی طرف تمام بے اعتمادی کے باوجود ابھی بھی یہ امید کر رہے ہیں کہ یہ تمام جماعتیں ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آجائیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ نظریاتی اور مسلکی اختلاف کے باوجود کیا یہ ملی جماعتیں ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آسکتی ہیں اور اگر آتی ہیں تو ان کے سامنے مشترکہ مسائل کیا ہیں؟ اس وقت مسلمانوں کے سامنے مشترکہ مسائل میں سب سے اہم مسئلہ ملی اور مذہبی تشخص، تحفظ، اقتصادی، سیاسی اور سماجی برابری کا ہے۔ ان مسائل کا حل تمام طرح کے مسلکی اور نظریاتی بنیاد پر کام کرنے والی تنظیموں کیلئے یکساں ضروری ہے۔ لہٰذا تمام طرح کے اختلافات کے باوجود بھی یہ ملی تنظیمیں موجودہ مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک مشترکہ اور متحدہ پلیٹ فارم پر آسکتی ہیں اور اس کام کو لے کر ان تنظیموں کو آپس میں بات چیت بھی کرنی چاہیے۔ لیکن اگر قومی سطح پر وہ ایک پلیٹ فارم پر آبھی جائیںاور ان تنظیموں کا ربط اور کوآرڈی نیشن صوبائی، ضلعی اور گرام پنچایت کی سطح پر نہیں ہوگا تو مشترکہ مقاصد میں کامیابی ملنا مشکل ہے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان تنظیموں کا کیڈر صوبوں میں زیادہ مضبوط نہیں ہے اور اس لائق نہیں ہے کہ وہ موجودہ حالات میں زمینی سطح پر مسلمانوں کو جو دشواریاں بیش آرہی ہیں، ان کا حل نکال سکیں، لہٰذا ان ملی تنظیموں کو اپنے کیڈر کی تربیت سازی صوبہ، ضلع، بلاک، گرام پنچایت اور مسجد کی سطح پر کرنی چاہیے اور جو مشترکہ مسائل ہیں، ان کو حل کرنے کیلئے مستقل تربیت سازی کا پروگرام منعقد کیا جانا چاہیے۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ علاقائی سطح پر مسلمانوں کے مشترکہ مسائل کیا ہیں؟ اس وقت سب سے اہم مسئلہ فرقہ وارانہ فسادات کا ہے، اس کے علاوہ قانونی انصاف حاصل کرنا بھی مسلمانوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کے ذریعے چلائے جارہے ترقیاتی پروگراموں سے مسلمان زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں، پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری اور تعلیمی پسماندگی مسلمانوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ان تنظیموں کو علاقائی سطح پر مستقبل اور موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے یوتھ لیڈرز یا سوشل اور کمیونٹی لیڈرز کا ایک مشترکہ کیڈر بنانا چاہیے جس میں خواتین اور غیر مسلموں کو بھی شامل کیا جاسکے۔ تربیت سازی کیلئے جو کورس تیار کیا جائے اس میں فرقہ وارانہ جھگڑوں کو نمٹانے کی صلاحیت، آئین کی معلومات، سیاست اور حکومتی اداروں کے بارے میں جانکاری،عالمی معاملات، ٹیکنالوجی، میڈیا کا استعمال، معاشی مسائل، سماج کا سسٹم اور تحریک آزادی کے بارے میں پوری طرح سے ٹریننگ دی جانی چاہیے۔ اس پروگرام کو نافذ کرنے کیلئے ایک قلیل، وسط اور لمبی مدت کی منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔اس پروگرام کی افادیت کا وقتاً فوقتاً تجزیہ بھی کیا جانا ضروری ہے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]