محمد عباس دھالیوال
ایک طرف روس اور یوکرین کے مابین جنگ چھڑی ہوئی ہے تو دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی طرف سے بمباری کرکے غزہ اور لبنان کو کھنڈرات بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کے قتل کا جواب دینے کے لیے ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی جوابی کارروائی کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ اس عالمی ماحول میں روس کے شہر قازان میں برکس ممالک کے سربراہ اجلاس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک دو گروپوں میں بٹے نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف جہاں امریکہ اور اس کے حواری ہیں تو دوسری جانب روس، چین اور ایران نظر آرہے ہیں۔
2001 میں سرمایہ کاری بینک گولڈ مین سیکس (Goldman Sachs) کے ایک ماہر اقتصادیات جم او نیل نے برازیل، روس، انڈیا اور چین کے لیے’برک‘ کا مخفف بنایا تھا۔ اصل میں یہ بڑے لیکن درمیانی آمدنی والے ممالک تھے جن کی معیشتیں اس وقت تیزی سے ترقی کر رہی تھیں۔ جم نے پیش گوئی کی تھی کہ ان ممالک کا گروپ 2050 تک دنیا کی صف اول کی معیشتیں بن کر ابھرسکتا ہے۔ اس کے بعد 2006 میں چاروں ممالک نے ’برک‘ گروپ کے طور پر ایک ساتھ آنے کا فیصلہ کیا۔ جنوبی افریقہ 2010 میں اس اتحاد کا حصہ بنا جس سے یہ گروپ برکس بن گیا۔
برکس کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں اصلاحات کے طریقے تلاش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک توانا آواز اور نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔2009 کے بعد سے برکس تیزی سے ایک زیادہ مربوط جیو پولیٹیکل بلاک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس کے ممبر ممالک کے سربراہان ہر سال سربراہ اجلاسوں میں ملاقات کرتے ہیں اور کثیر جہتی پالیسیوں کو مربوط کرتے ہیں۔ برکس ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات بنیادی طور پر عدم مداخلت، مساوات اور باہمی فائدے کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ برکس ممالک کو سرکردہ ترقی یافتہ معیشتوں کے جی-7 کا سب سے اہم جیو پولیٹیکل حریف سمجھا جاتا ہے اور یہ مسابقتی اقدامات کا اشارہ دیتا ہے جیسے کہ نیو ڈیولپمنٹ بینک، برکس کانٹی جنٹ ریزرو آرجمنٹ، برکس ادائیگی کا نظام، برکس مشترکہ شماریاتی اشاعت اور برکس کرنسی ریسرو باسکٹ۔2022 سے گروپ نے رکنیت میں اضافے کی کوشش کی ہے جس میں کئی ترقی پذیر ممالک نے شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اگست 2023 میں 15 ویں برکس سربراہ اجلاس میں جنوبی افریقہ کے صدر سیریل رامافوسا نے اعلان کیا تھا کہ ارجنٹینا، مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو برکس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے مگر سعودی عرب اب تک شامل نہیں ہوا اور ارجنٹینا شامل نہیں ہوگا۔
اس بار کے رو س کے قازان میں منعقدہ برکس سربراہ اجلاس میں ممبر ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ اہم لیڈروں نے شرکت کی۔ اس موقع سے وزیراعظم نریندر مودی نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ روس کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں۔ ہماری گہری دوستی ہے۔ ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہم روس-یوکرین تنازع کے سلسلے میں رابطے میں ہیں۔ ہر مسئلہ امن کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ روس-یوکرین جنگ کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت اپنے موقف پر قائم ہے اور امن کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔ بھارت انسانیت کو ترجیح دینے کو تیار ہے۔ ہم امن و استحکام کی بحالی کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برکس سربراہ اجلاس کے لیے قازان جیسے خوبصورت شہر میں آنے کا موقع ملنا میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔ قازان میں بھارت کا نیا قونصل خانہ کھلنے سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے وزیراعظم مودی کے سلسلے میں کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ہماری ملاقات جولائی میں ہوئی تھی اور ہم نے بہت سے معاملات پربہت اچھی بات چیت کی تھی۔ ہم نے کئی بار ٹیلی فون پر بھی بات کی ہے۔ اجلاس کے دوران دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہمیں کچھ انتہائی اہم فیصلے لینے چاہئیں ۔
برکس سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے روس روانہ ہونے سے قبل وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ بھارت برکس ممالک کے درمیان قریبی تعاون کی قدر کرتا ہے ۔ یہ پلیٹ فارم عالمی ترقیاتی ایجنڈا، کثیر الجہتی نظام میں بہتری، آب و ہوا میں تبدیلی ، اقتصادی تعاون، لچکدار سپلائی چیز کی تعمیر ، ثقافتی اور انسانی ہمدردی کو فروغ دینے جیسے مسائل پر بات چیت اور تبادلہ خیال کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ گزشتہ سال نئے ممبران کی شمولیت کے ساتھ برکس کی توسیع نے اس کی جامعیت اور عالمی بہبود کے ایجنڈے میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ جولائی میں ماسکو میں منعقدہ بھارت-روس سالانہ چوٹی کانفرنس کی بنیاد پر میرا قازان کا دورہ بھارت اور روس کے مابین خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا۔
برکس سربراہ اجلاس کی روس کے لیے اس لیے بھی خاصی اہمیت رہی کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد یہ ایسا پہلا بڑا اجلاس تھا جس میں دنیا کے دو درجن سے زیادہ ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں نے شرکت کی۔ برکس کے اس سربراہ اجلاس سے روس یہ دکھانے میں کامیاب رہا کہ جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کا دائرۂ اثر محدود نہیں ہوا ہے، اس کی وہ پوزیشن برقرار ہے جو جنگ سے پہلے تھی بلکہ غزہ جنگ نے اس کی اہمیت بڑھا دی ہے اور وہ عالمی سطح پر ایک رول ادا کرنے کے لیے تیار ہے، اس لیے لگتا یہی ہے کہ آنے والے وقت میں برکس کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا اور اس کے رول میں بھی۔