روسی صدر ولادیمیر پوتن کا شمار دنیا کے ان لیڈروں میں ہوتا ہے جو عالمی حالات کی تبدیلیوں کو وقت سے پہلے سمجھ جاتے ہیں اور اسی کی مناسبت سے کام کرتے ہیں۔ 9/11 کے بعد سمجھ گئے تھے کہ افغانستان کے خلاف جنگ چھیڑ کر امریکہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ افغان جنگ سے پیدا حالات کا فائدہ پوتن نے روس کو مستحکم بنانے کے لیے اٹھایا۔ دراصل وہ دیکھ رہے تھے کہ ناٹو کی توسیع رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور اس کی توسیع روس کی سرحدوں تک ہو جائے گی۔ پھر واویلا مچانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ غالباً اسی لیے روس نے پہلی بار یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کی تو اس سے کریمیا کو الگ کرکے اپنے ساتھ ملا لیا۔ یہ اشارہ تھا یوکرین کے لیے لیکن زیلنسکی نے امریکہ اور یوروپی ممالک کی قربت میں روس کی طاقت کو نظر انداز کر دیا۔ اس کا خمیازہ یوکرین کے تمام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ امریکہ اوریوروپی ممالک نے یوکرین کی بڑی مدد کی ہے مگر غزہ جنگ کی ابتدا اور اس کی توسیع کے بعد سے حالات بدل گئے ہیں۔ روس کی پوزیشن مستحکم ہو گئی ہے۔ ولادیمیر پوتن یہ سمجھ چکے ہیں کہ فلسطین کی مسلمانوں کے لیے اہمیت ہے، غزہ جنگ میں شمولیت کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ خراب ہوئی ہے تو فلسطینیوں کی باتیں کرکے، ان سے ہمدردی کا اظہار کرکے روس مسلم ممالک میں اپنے دائرۂ اثر کو وسعت دے سکتا ہے۔
غالباً اسی لیے روس نے برکس کے سربراہ اجلاس میں شامل ہونے کے لیے فلسطینی صدرکو مدعو کیا اور فلسطینیوں کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے موقف واضح کر دیاہے کہ ’فلسطینی عوام کے ساتھ تاریخی ناانصافی ہو رہی ہے۔‘ یعنی پوتن نے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ روس فلسطینیوں کے ساتھ ہے، اس سلسلے میں اس کا موقف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک سے الگ ہے۔ ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق، روسی سربراہ نے برکس کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’غزہ میں گزشتہ سال شروع ہونے والا تصادم اب لبنان تک پھیل چکا ہے اور خطے کے دیگر ممالک بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان تصادم کی سطح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب ایک زنجیری ردعمل ہے جس نے پورے مشرق وسطیٰ کو بھرپور جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔‘ پوتن نے فلسطین کے معاملے میں اقدامات پر زور دیا، خطۂ فلسطین میں قیام امن پر زور دیا اور یہ کہا کہ ’فلسطینی عوام کے ساتھ تاریخی ناانصافی کی جا رہی ہے اور اس ناانصافی کی اصلاح ہی مشرق وسطیٰ میں امن کی ضمانت دے سکتی ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، تشدد کا تسلسل بھی ختم نہیں ہو گا۔ لوگ مستقل بحرانی ماحول میں زندگی گزارتے رہیں گے۔‘لیکن کیا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی سمجھ میں پوتن کی باتیں آئیں گی؟ اگر نہ بھی آئیں تو ان کے لیے یہ بے چینی کی بات ہوگی کہ مسئلۂ فلسطین میں دلچسپی لے کر روس مشرق وسطیٰ کے ہی نہیں، دیگر مسلم ممالک سے بھی رشتہ مستحکم بنا سکتا ہے۔n