عوام کاخون پسینہ نچوڑ کر جگہ جگہ چکاچوند پھیلانے اور دادعیش دینے والی ملکی ہوابازی کی صنعت ان دنوں سنگین چیلنجز سے گزررہی ہے۔یہ چیلنجز معاشی نہیں بلکہ سیکورٹی کے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری طیاروں کو بموں سے اڑانے کی دھمکیوں کا سلسلہ رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔آج ایک بار پھر 85 پروازوں کوبم دھماکوں سے اڑا دینے کی سنگین دھمکی موصول ہوئی ہے۔رپورٹس کے مطابق ان میں ایئر انڈیا کی 20، انڈیگو کی 20، وستارا کی 20 اور آکاسا کی 25 پروازیں شامل ہیں۔ گزشتہ 11 دنوں میں 255 سے زائد طیاروں کو بم کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ تاہم بعد میں یہ تمام دھمکیاں افواہیں ثابت ہوئیں، لیکن ان افواہ نما جعلی دھمکیوں کی وجہ سے ہوا بازی کے شعبے کو 600 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مالی نقصان کمپنیاں چند دنوں میں پورا کرلیں گی کیوں کہ ٹکٹوں کی فروخت ان کے ہاتھ میں ہے۔ اندرون ملک ایک گھنٹہ کے فضائی سفرکیلئے50ہزارروپے میں بھی ٹکٹ بیچیں تو کوئی ان کے ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے لیکن افواہوں اور دھمکیوں کی وجہ سے ان پر عوام کا اعتماد ختم ہورہاہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومت اور فضائی کمپنیوں کی جانب سے سخت اقدامات کیے جانے کے باوجود اس طرح کی دھمکیاںمسلسل موصول ہورہی ہیں جس سے نہ صرف خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ یہ اس صورتحال کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ جعلی دھمکیاں دینے اور افواہ پھیلانے والوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے۔
ہوائی سفر کو محفوظ اورآسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹرینوں میں زیادہ بھیڑ اور طویل سفری وقت کی وجہ سے مسافروں کا ایک بڑا طبقہ ہوائی سفر کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن یہاں بھی تاخیر، پروازوں کی منسوخی اور جعلی پیغامات اور طیاروں میں بم نصب کرنے کی دھمکیوں نے انہیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہ بڑا سوال ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا ای میل بھیج کر کوئی کھلم کھلا اس طرح کی دھمکی کیسے دے سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت ہے جب حکومت اور فضائی کمپنیاں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے پاس جعلی پیغامات کا پتہ لگانے کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔ اس کے باوجود سیکورٹی ادارے جھوٹی دھمکیاں دینے والوں کا سراغ نہیں لگا پارہے ہیں اور دھمکی دینے والے کہیں محفوظ مقام پر بیٹھے اپنی حرکتیں دوہرارہے ہیں۔
اس طرح کے واقعات نہ صرف محفوظ سفر کا اعتماد ختم کررہے ہیں بلکہ مسافروں کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈال کر عوام میں خوف و ہراس پیدا کررہے ہیں۔جعلی دھمکیوں اورا فواہوں کے حوالے سے اٹھائے جارہے یہ سوالات بھی اہم ہیں کہ کیا یہ مالیاتی دہشت گردی کا حصہ تو نہیںہیں؟پہلی دھمکی گزشتہ 14 اکتوبر کو ایئر انڈیا کے بوئنگ 777 طیارے کو ملی۔130 ٹن جیٹ فیول سے لدا ممبئی سے نیویارک کے جان ایف کینڈی ہوائی اڈے کی جانب پروازکررہا تھا۔تاہم ایئر لائن کو ٹیک آف کے فوراً بعد بم کی دھمکی موصول ہوئی، اس کی وجہ سے ایئر انڈیا کے اس طیارے کو نیویارک جانے کے بجائے دو گھنٹے کے اندر دہلی کے اندراگاندھی بین الاقوامی ایئرپورٹ پرہنگامی لینڈنگ کرنی پڑی۔ یہ پہلاواقعہ نہ صرف حفاظتی تشویش بلکہ ہوائی کمپنی کیلئے ایک مہنگا معاملہ بھی ثابت ہوا۔طیارہ کا وزن تقریباً 350 ٹن کے درمیان تھا جس میں طیارہ کا عملہ، مسافراوران کا سامان شامل ہے۔ بوئنگ 777 طیارے کا زیادہ سے زیادہ لینڈنگ وزن 250 ٹن ہے۔ طیارہ کو بحفاظت لینڈ کرنے کیلئے تقریباً 100 ٹن ایندھن پھینکنا پڑا۔ ایک طرف ایندھن کا ضیاع ہوا تو دوسری جانب اس طیارے میں سوار 200 سے زائد مسافروں اور عملے کو ہوٹل میں رہائش فراہم کی گئی۔اس کے بعد تو دھمکیوں کا سلسلہ ہی شروع ہوگیا۔ ہوائی کمپنیوں کے حکام نے جعلی کالز کو مالی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ معاملہ مالی دہشت گردی ہو یا نہ ہو لیکن اس کی وجہ سے حالات بہت سنگین ہوگئے ہیں۔حکومت ان دھمکیوں سے نمٹنے کے اقدامات کررہی ہے، دوران پرواز ایئر مارشل کی تعداد دوگنی کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے اور دوسری حفاظتی تدابیر بھی اپنائی جارہی ہیں،بم دھماکے کے ذمہ دار افراد کو بلیک لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود عوام میں سخت عدم تحفظ کا احساس پید اہوگیا ہے اور وہ ہوائی سفر سے کترانے لگے ہیں، اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جارہی رہا تو ہوائی کمپنیوں کیلئے منافع کایہ تہواری موسم انتہائی ناسازگار ثابت ہوگا۔اس کے ساتھ ہی اس کے اثرات عمومی تجارت پر پڑیں گے اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔جعلی دھمکیوں کے یہ نقصانات نہ صرف براہ راست متاثرہ افراد بلکہ پورے معاشرے اور معیشت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ایک سنگین خطرہ یہ بھی ہے کہ جعلی دھمکیوں کی وجہ سے حقیقی خطرات کی تشخیص مشکل ہو جائے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیاجائے اوراس کے تدارک کی راہ نکالی جائے۔