دنیا کے حالات زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ یوکرین جنگ جاری ہے، غزہ جنگ کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں، وجہ یہ بھی ہے جن طاقتور ملکوں کو عالمی امن کے قیام میں مثبت رول ادا کرنا چاہیے تھا، ان کا رول مشتبہ اور مذموم ہے۔ حالات یہ ہیں کہ سپرپاور ہونے کے باوجود امریکہ نے یوکرین اور غزہ کی جنگوں کو ختم کرانے میں مثبت رول ادا نہیں کیا ہے بلکہ اس کے حوالے سے گزشتہ چند دنوں میں جو خبریں آئی ہیں، حیرت زدہ کر دینے والی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن بظاہر غزہ میں جزوقتی جنگ بندی کے لیے کوشاں رہے ہیں اوران کی حکومت اسرائیل کو ہتھیار بھی سپلائی کرتی رہی ہے۔ ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے امریکی حکام کے حوالے سے جو خبر دی ہے،اس کے مطابق، غزہ جنگ کی تقریباً ابتدا سے ہی امریکہ کی فوج اور انٹلیجنس سیل نے حراست میں لیے گئے افراد کی تلاش پر توجہ مرکوز کی اور حماس کے سینئر لیڈروں کا تعاقب کیا۔ رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کے فوراً بعد سی آئی اے نے ایک ٹاسک فورس کی تشکیل کی تھی۔‘ اور ’امریکہ نے اسرائیل کو زمین میں گھسنے والا رڈار فراہم کیا تھا تاکہ قیدیوں اور حماس کے لیڈروں کا پتہ لگایا جا سکے۔ یہ رڈار غزہ کے نیچے سیکڑوں میل لمبی سرنگوں کا نقشہ بنانے میں مدد کرتا تھا۔‘یہ رپورٹ اگر سچ مان لی جائے تو یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ غزہ جنگ میں اسرائیل کی صرف مدد ہی نہیں کرتا رہا ہے، اس کے ساتھ شامل بھی رہا ہے۔ اسے ایران کے سلسلے میں امریکہ سے لیک ہونے والے خفیہ دستاویزات پر آنے والی رپورٹوں سے بھی تقویت ملتی ہے۔ اس کے مطابق، ایران پر جوابی کارروائی کے لیے اسرائیل بڑے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ وہ ہتھیاروں کی نقل و حمل کر رہا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت جو کر رہی ہے، اس سے امریکہ ناواقف نہیں ہے۔ اس کی رضامندی شامل ہے۔ امریکہ اگر واقعی جنگ کے خلاف ہوتا تو غزہ جنگ ختم کرانے میں رول ادا کرتا۔
ایران پر اگر اسرائیل بھرپور حملہ کرتا ہے تو اسے امریکہ کی رضامندی سے کیا گیا حملہ ہی مانا جانا چاہیے، کیونکہ ایسا نہ ماننے کی وجہ نہیں رہ گئی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ غزہ جنگ کی توسیع ایران تک ہوگی اور مشرق وسطیٰ کا امن غارت ہو جائے گا۔ اس کے اثرات دنیا کے دیگر علاقوں پر بھی پڑیں گے، چنانچہ فی الوقت دنیا کے حالات زیادہ خراب ہونے کا ہی اندیشہ ہے، کیونکہ روس، چین اور دیگر ممالک مشرق وسطیٰ کے حالات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ اس موقع کا استعمال روس، یوکرین جنگ کو انجام تک پہنچانے کے لیے کرے اور اگر آگے بڑھ جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاکر اگر جنوبی کوریا کی خودمختاری پر شمالی کوریا سوالیہ نشان لگانا چاہے تو اس پر بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
چینی سربراہ شی جن پنگ نے تو باضابطہ اپنی فوج سے جنگ کی تیاری کرنے کے لیے کہہ دیا ہے؟ انہیں یہ کہنے کی کیوں ضرورت پیش آئی، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ چین پہلے بھی دنیا کے بدلتے حالات سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ 16 تا 28 اکتوبر، 1962 کو کیوبن میزائل کرائسس ہوا تھا اور چین نے 20 اکتوبر، 1962 کو وطن عزیزہندوستان پر حملہ کر دیا تھا۔ اس سے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ چین نے کیوبن میزائل کرائسس سے فائدہ اٹھاکر ہندوستان پر حملہ کیا تھا، اس لیے شی کا اپنی فوج کو جنگ کی تیاری کرنے کے لیے کہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کا ایسا کہنا تائیوان کے لیے باعث تشویش ہوگا۔ وہ ممالک بھی اپنی افواج کو الرٹ کرنا چاہیں گے جن کے علاقوں پر چین کی نظر بدہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے چین نے اگر تائیوان پر حملہ کر دیا تو کیا امریکہ تائیوان کی بھی مدد کرے گا؟ اور اگر وہ اس کی مدد کرنے کے لیے گیا تو یہ خود اس کی دفاعی طاقت کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ امریکہ بھلے ہی سپر پاور ہو، اس کے سائنس دانوں نے ابھی ایسی کسی مشین کی ایجاد نہیں کی ہے کہ بٹن دباتے ہی ہتھیار تیار ہو جائے مگر بیشتر امریکی لیڈران یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ طاقت کا بھرم ٹوٹتا ہے تو پھر ٹوٹتا ہی چلا جاتا ہے۔ فی الوقت انہیںیہ لگتا ہے کہ امریکہ کی طاقت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کی وہ پوزیشن نہیں رہی جو افغان اور عراق جنگ سے پہلے تھی۔
[email protected]