اے ایم یو: تعلیم کے چراغ کے لو کو مزید روشن کرنے کی ضرورت : ڈاکٹر شجاعت علی قادری

0

ڈاکٹر شجاعت علی قادری

تاریخی تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے لئے تعلیمی ادارہ بھی ہے اور ایک سماجی ڈھانچہ بھی۔مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدجب مسلمان اپنا وقار کھو چکے تھے، اس وقت جدیدیت کی طرف یہ ان کی پہلی قدم تھی۔ اس تعلیمی ادارہ کے بانی سرسید احمد خان نے مسلم جاگیرداروں کے تکبر و گھمنڈ کو ختم کرکے مستقبل کے لئے اسے تیار کیا۔شریف یا اشرف کہلانے والے جاگیردار ابتدا میں سرسید کو کام نہیں کر دئے، کیونکہ انہوں نے بچوں کے ہاسٹل کو اپنی آرام گاہ بنا لیا۔ان میں سے کچھ ہی لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ان میں سے اکثر یا تو اپنی موروثی دولت سے زندگی گزارنے کیلئے واپس چلے گئے یا علی گڑھ میں بسے رہے۔

محمد اینگلو اورینٹل (MAO) کالج کے نام سے قائم اس یونیورسٹی کو طلبا کے اخراجات پورے کرنے کے لئے فنڈز کا انتظام کرنے کے لیے بھی جدوجہد کر نا پڑ رہا تھا۔ سرسید کے آخری تین سالوں میں، 1895 سے 1898 تک، ایم اے او کالج میں طلبا کی تعداد 595 سے کم ہو کر 165 رہ گئی تھی۔ فنڈز کی کمی نے اسے بند ہونے کے دہانے پر پہنچا دیاگیاتھا۔ چند طلبا کو چھوڑ کرشروع کے اکثر طلبا تعلیمی طور پر بہت ترقی نہ کر سکے۔لیکن اس وقت کے برطانوی پرنسپل تھیوڈور بیک اور ان کی مشنری پرجوش تھی، جس کی وجہ سے کالج بند نہیں ہوا۔

سر سید کی محنت رائیگاں نہیں گئی، اور جلد ہی اس تعلیمی ادارہ نے رفتار پکڑ لی اور ہندوستانیوں کے تقریباً تمام طبقوں سے ذہین اور امیر ترین لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس یونیورسٹی کی بنیاد مسلمانوں کی تعلیمی اورترقی کیلئے رکھی گئی تھی،لیکن اس کے باوجود سماج کے سبھی لوگوں کیلئے یونیورسٹی کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا ہے۔ اورشمالی ہندوستان کے لوگوں نے، مذہبی نظریات سے قطع نظر، اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجنے کے لیے اسے بہترین تعلیمی ادارہ کے طور پر دیکھا۔ اس طرح متعدد قابل ذکرہندو اور مسلمان دونوں کی یادیں اس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس یونیورسٹی کے سابق طالب علموں میں سے ایک راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، جو کابل میں جلاوطنی میں ہندوستان کی پہلی عارضی حکومت کے صدر بنے، اس کے ابتدائی طلبہ میں سے تھے۔ ہندوستانی ہاکی کے سب سے بڑے کھلاڑی میجر دھیان چند نے جب اے ایم یو میں طالب علم تھے تو اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا۔ اسی طرح اس کی فہرست لامتناہی ہے۔

ایم اے او کالج کے قیام کے پیچھے سرسید کا وژن مسلمانوں کے طرز تعلیم کو بدلنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ جدید زبان اور محاورے میں جدید تعلیم حاصل کریں۔ اس کے علاوہ وہ اس وژن کو صرف علی گڑھ میں اپنے کالج تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے یہ ایک تحریک تھی۔ بعد میں یہ علی گڑھ کے نام سے ایک تحریک میں بدل گئی۔ اس نے مسلمانوں کو تعلیمی طور پر روشن کرنے کی کوشش کی۔اس وقت مسلمانوں کے تعلیمی روایتی مراکز، جنہیں عرف عام میں مکاتب کہا جاتا ہے، مدارس کہا جاتا ہے،اس وقت کے بدلتے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ برطانوی استعمار کی کامیابی نے سرسید کو سکھایا تھا کہ کیسے کسی قوم پر برتری حاصل کی جاتی ہے۔ وہ سائنسی طور پر ترقی یافتہ تھے اور اس طرح تقریباً ہر شعبے میں ان کی جدید ترین مہارتوں سے کوئی مماثلت نہیں تھی، چاہے وہ فوجی جنگ ہو، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اسٹیٹ کرافٹ اور ادارہ سازی وغیرہ ہو۔یہی وجہ تھی کہ انہیں تقریباً ہر میدان میں برتری ملی تھی۔سرسید کے انتقال کے بائیس سال بعد ایم اے او کالج یونیورسٹی بن گیا۔ آج اے ایم یو علی گڑھ شہر میں 467.6 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔یہاں پر اس وقت روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ 300 سے زیادہ کورسز ہیں۔ یہاں پر ہندوستان کی تمام ریاستوں اور مختلف ممالک، خاص طور پر افریقہ، مغربی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے طلبا تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔ کچھ کورسز میں، سیٹیں سارک اور دولت مشترکہ کے ممالک کے طلبا کے لیے مختص ہیں۔ یونیورسٹی بلا تفریق ذات، عقیدہ، مذہب یا جنس سب کے لیے کھلی ہے۔ یہ ہندوستان کی ٹاپ 20 ریسرچ یونیورسٹیوں میں 8ویں نمبر پر ہے۔

اس میں 37,327 طلبا ، 1,686 اساتذہ اور تقریباً 5,610 غیر تدریسی عملہ شامل ہیں۔ یونیورسٹی میں اب 13 فیکلٹیز ہیں جن میں 117 تدریسی شعبے، 3 اکیڈمیاں اور 21 مراکز اوردیگرکئی ادارے شامل ہیں۔ یونیورسٹی کی ایک خاص خصوصیت اس کا رہائشی کردار ہے جس میں زیادہ تر عملہ اور طلبا کیمپس میں رہتے ہیں۔ طلبا کے لیے رہائش کے 19 ہال ہیں جن میں 80 ہاسٹلز ہیں۔اے ایم یو ہندوستان کی پہلی یونیورسٹی ہے جو اپنے طلبا کو کلاس 1 (پرائمری اسکول کی سطح) سے پی ایچ ڈی کی سطح تک تعلیم فراہم کرتی ہے۔ یونیورسٹی کے ملاپورم، کشن گنج اور مرشد آباد میں مراکز بھی ہیں۔ ان کیمپس میں ہندوستان کے دور دراز علاقوں کے طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں۔سر سید احمد خان کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کرنے کے اقدام سے متاثر ہو کر، 4 یونیورسٹیاں قائم کی گئیں ۔ 3 ہندوستان میں اور 1 پاکستان میں۔ سب سے پہلے، 1920 میں، مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا آزاد نے، انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر، JMI قائم کی۔ دوسرا، 1990 میں، دہلی کے معروف کاروباری، حکیم عبدالحمید نے نئی دہلی میں جامعہ ہمدرد (ہمدرد یونیورسٹی) قائم کی۔ تیسرا، آسام سے تعلق رکھنے والے علیگ محبوب الحق نے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میگھالیہ (یو ایس ٹی ایم) قائم کی۔ 1993 میں اے ایم یو کے سابق طالب علم Z.A.نظامی نے کراچی، پاکستان میں سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کی۔اسی طرح کئی دوسرے چھوٹے اور بڑے ادارے ایسے لوگوں نے قائم کیے ہیں جو یا تو اے ایم یو سے پاس آؤٹ ہوئے تھے یا پھر علی گڑھ تحریک سے متاثر تھے۔

تعداد میں محدود ہونے کے باوجود یہ تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تحریک کو آگے لے جانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ عام طور پرہر ہندوستانی کے لئے ایک نعمت ہے۔کیونکہ یہاں سے ہندوستان کے مستقبل کے متعدد سائنس داں، منتظمین اور رہنما نکلے ہیں اور مسلسل یہاں سے ملک کو آگے بڑھانے کے لئے دانشور پیدا ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ علیگ کمیونٹی -جو کہ اے ایم یو کے سابق طلبا کا اجتماعی نام ہے – 17 اکتوبر کو سالانہ سر سید ڈے کے طور پر مناتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دن علیگس اپنی زندہ دلی کو دہراتے ہیں، تاہم وہ یونیورسٹی کے مقصد اور مستقبل کی سمت میں کوئی مستقل قدم نہیں اٹھاپاتے ہیںجو افسوسناک ہے۔ اے ایم یو کا یقیناً ایک شاندار ماضی ہے اور تعلیم کے فروغ کا ایک ثابت شدہ ریکارڈ ہے۔ لیکن اس میں صرف مسلم مخصوص سیاست کا مرکز ہونے کا داغ بھی ہے۔ تقسیم سے پہلے کی سیاست کے مسلم لیگ کے نقطہ نظر کی حمایت میں اس کا کردار پاکستان کی تخلیق میں اس کے کردار پر مہر ثبت کرتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ 1947 کے بعد اس طرح کے مسلم لیگی رنگ کیمپس میں پھیل گئے۔

چونکہ ہندوستان اور دنیا دونوں ہی مستقبل کی طرف بہت آگے جا چکے ہیں، اے ایم یو کے پاس اپنے ماضی کو یاد کرکے ضائع کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اسے ایک مضبوط جدید یونیورسٹی کے طور پر اپنی اسناد کو بہتر بنانا ہے اور صرف مستقبل کی سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اے ایم یو کو اس کی علمی فضیلت سے جانا اورپہچانا جاناچاہئے نہ کہ اس کی ماضی کی عظمت یا مسلم مسائل کی وکالت سے۔
(مضمون نگار مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے چیئرمین ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS