عوام کی عدالت

0

چیف جسٹس آف انڈیاڈی وائی چندرچوڑنے سپریم کورٹ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ عوام کی عدالت ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ اسے اسی نظریہ سے دیکھنا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے عوام کی عدالت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی عدالت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار ادا کرے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے اسی طرح دیکھناچاہئے ، لیکن کردارکے معاملہ میں لوگوں کی سوچ ایسی ہے کہ جب سپریم کورٹ سے لوگوں کے حق میں فیصلہ آتاہے ،تووہ اسے شاندار قرار دیتے ہیں ، تاہم جب فیصلہ ان کے خلاف آتاہے ، تو وہ اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جو نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ ایک غلط طرزعمل ہے ۔سپریم کورٹ کے کردار اور کام کو نتائج کے نقطہ نظر سے نہ دیکھیں ۔ ذاتی معاملات میں نتائج حق میں اورخلاف دونوں ہوسکتے ہیں ۔نتائج کے حساب سے لوگوں کو سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کرنا چاہئے ،البتہ قانونی اصولوں کی گڑبڑی یا کسی غلطی کیلئے عدالتوں پر تنقید کرسکتے ہیں اورکرنا بھی چاہئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے بارے میں جو کچھ کہاہے ، وہ اپنی جگہ صد فیصد درست ہے ۔موجودہ دور میں لوگوں کو سب سے زیادہ بھروسہ اگر کسی پر ہے ، تو وہ عدلیہ ہے ۔لوگ سوچتے ہیں کہ سماج انہیں پریشان کرسکتاہے ۔ حکومت کے اقدامات، قانون سازی یا فیصلوں سے انہیں مشکلات کا سامناکرناپڑسکتاہے، لیکن عدلیہ ہی ایک ایسی جگہ ہے ، جہاں سے انہیں انصاف مل سکتاہے اوران کودرپیش مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ ہرجگہ سے مایوس ہوجاتے ہیں ، توتھک ہار کر عدالت کا ہی دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ، جہاں سے انہیں انصاف بھی ملتا ہے اورپریشانی بھی دور ہوتی ہے ۔ یہ بھروسہ پچھلے 75برسوں سے قائم ہے اورملک میں جیسے حالات ہیں ، ان حالات میں بھی امید کی جاتی ہے کہ یہ بھروسہ آگے بھی قائم رہے گا۔حکومت کے اقدامات سے یقینا بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں اورحکومت کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے ،لیکن کبھی کبھی مسائل پیداہوتے ہیں ، پھر وہ عدالتوں سے ہی حل ہوتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے صحیح کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا مطلب عوام کی عدالت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہاں تک ایک عام آدمی کی رسائی آسانی سے ہوجاتی ہے ؟سپریم کورٹ ہی کیا نچلی عدالتوں میں بھی لوگ اپنے معاملات آسانی سے اٹھاسکتے ہیں؟ اورطویل قانونی لڑائی کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں؟ ۔یہ ایک ایسا سوال ہے ، جس کا جواب عموما نہیں ملتا۔ قانونی اخراجات کا معاملہ ایک بار صدر جمہوریہ دروپدی مرمو بھی چیف جسٹس چندرچوڑ کے سامنے ایک پروگرام میں اٹھاچکی ہیں ۔کتنے لوگ ہیں، جو قانونی لڑائی لڑتے لڑتے اپنا گھربار ، کھیت ، زمین وجائیداد حتی کہ زیور تک فروخت کردیتے ہیں ، ان کے پیسے ختم ہوجاتے ہیں ،معاشی طورپر وہ برباد ہوجاتے ہیں اورسڑکوں پر آجاتے ہیں ،پھر بھی انصاف ان سے دور رہتاہے ۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع نہیں کرپاتے ، جیلوں میں سزا پوری ہونے کے باوجود باہر نہیں آپاتے اورپیسے والے سزا پوری ہونے سے پہلے کبھی پیرول تو کبھی فرلو پرمعمولی معمولی وقفہ سے پر باہر آتے رہتے ہیں ، بڑے وکیل کرکے ضمانت حاصل کرلیتے ہیں ۔یہ معمولی بات نہیں ہے کہ ان سب حالات کے باوجود بھی لوگوں کو بھروسہ رہتاہے کہ انصاف کی جیت ہوگی اورایک نہ ایک دن انہیں عدالت سے انصاف ضرور ملے گا، لیکن وہ کب ملے گا ، یہ بڑاسوال ہے ، کیونکہ انصاف کیلئے کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا ۔ برسوں لگ جاتے ہیں، تاریخ پہ تاریخ ملتی رہتی ہے، لوگ چکر لگاتے رہتے ہیں اور عدالتوں کے فیصلے نہیں آپاتے ۔اس کی وجہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتارہتاہے ۔عدالتوں کوعوام کی عدالت اسی وقت کہا جاسکتاہے ، جب وہاں عام آدمی کی رسائی ہی آسانی کے ساتھ ہوں ، بلکہ مقدمات بھی کم خرچیلے ہوں اورفیصلے بھی جلدی ہوں۔ورنہ ایسے کسی کی زندگی ہی برباد ہوجائے گی یا اس کی موت ہوجائے گی یاوہ کسی کام کا نہیں رہے گاتو پھر اس کے جیل سے باہر آنے اور ایسی رہائی سے اسے کوئی فائدہ اس کے علاوہ نہیں ہونے والا ہے کہ وہ کھلی فضامیں سانس لینے کا اہل ہوجائے گا۔ یقینابعض امور میں لوگ ضرور سوچتے ہیں کہ سپریم کورٹ سرکارکے فیصلوں کی مخالفت کرے اوراسے بدل دے، لیکن جہاں عوام کی عدالت کا سوال ہوگا، تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ عدلیہ تک عوام کی رسائی اورانصاف کا حصول آسان ہوجائے ، جو ابھی تک ممکن نہیں ہوپایا ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS