یوروپی ممالک جوکہ مغربی بلاک کا بہت اہم اور بااثر حصہ ہے، امریکہ اور برطانیہ کی انفرادی پالیسی سے قدرے مختلف حکمت عملی اختیار کررہاہے۔ یوروپی یونین جو کہ 27یوروپی ممالک کا گروپ ہے، ایک علیحدہ کرنسی بنانے میں کامیاب رہاہے اور اس کی پالیسی دنیا کے دیگر ممالک سے جدا ہے۔ برطانیہ، جرمنی کے علاوہ ایک آدھ اور یوروپی ملک کو چھوڑ کرکئی ممالک سب سے اہم ایشو عرب اسرائیل معاملہ پرلگاتار اسرائیل کی نکتہ چینی کررہے ہیں۔ خاص طورپر اسپین، ناروے اور فرانس۔ فرانس نے تو اسرائیل کو اسلحوں کی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرانس نے لبنان کی صورت حال پر غور کرنے کے لیے ایک ہم خیال گروپ کے ممالک سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے قومی کانفرنس بلائی ہے۔
بہرکیف، اس وقت برسلز میں یوروپی یونین کی ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے جس میں خلیجی ملکوں کے طاقتور بلاک جی سی سی ملکوں اور یوروپی یونین کے سربراہان نے دونوں خطوں کے درمیان تعاون بڑھانے اور ایک دوسرے کے امور اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سربراہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہاہے جب مغربی ایشیا کے بڑے خطے میں جنگ ہورہی ہے، اور دوسری جانب یوروپ میں بھی یوکرین اور روس کے درمیان محاذ دوسال سے کھلاہوا ہے۔ ان دونوں خطوں کی جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیار استعمال ہورہے ہیںاورانسانی حقوق اور دیگر امور اور اصولوں کی بے تحاشہ خلاف ورزی ہورہی ہے۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہورہی ہیں اور ان ہلاکتوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ عرب اور مسلم ملکوں کو شکایت ہے کہ یوروپی ممالک اسرائیل کو جدید ہتھیار ودیگر آلات حربی دے کر معصوم بچوں اور بے سہارا ملکوں کی ہلاکت کا سامان مہیا کرارہے ہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک نے یوکرین پر روس کی یلغار اور جارحیت کا ایشو اٹھا کر اس سنگین مسئلہ پرجی سی سی کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ دراصل یوروپی یونین اسی طرح دنیا بھر کے بااثر بلاکوں اور ملکوں کے گروپ کے ساتھ تال میل، تعاون بڑھا کر اپنے نظریات اور پالیسیوں سے متعارف کرنا اور تجارتی تعلقات کو استوار کرناچاہتی ہے۔ یوروپی یونین کے اکثر ممالک اور متحدہ اکائی اپنی اقتصادی اور تجارتی اہمیت کو بڑھانے اور دائرہ کو وسیع کرنے کی حکمت عملی اپنارہی ہے۔ اپنا دائرہ بڑھاکر وہ اپنے اقتصادی استحکام کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ان ممالک کو خطے کے عوام سے کوئی محبت نہیں ہے، یہ بات ان کے قول وعمل اورغزہ پر اسرائیل یلغار سے واضح ہوچکی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یوروپ اب ترقی یافتہ سماج ہوگیاہے مگر اس کی معیشت کیونکہ مجموعی طورپر آپس میں اقتصادی تجارتی تعاون کو فروغ دینے تک مرکوز ہے اور وہ اپنے آپ کو دوسرے خطوں اور ملکوں سے اعلیٰ اور افضل نسل وقوم سمجھتا ہے۔ یہ بات یوکرین بحران کے بعد بالکل ہی وضح ہوگئی۔ یہ ممالک یوکرین کے نیلی آنکھوں والے اور سنہرے بالوں اور سفیدرنگت والوں کومحبت میں گرفتار دیکھ کر بے چین ہوجاتے ہیں مگر ان کو ایشیائی، افریقی اور دیگر بھوری رنگت والوں سے کوئی الفت تو کیا ہمدردی تک نہیں ہے۔ غزہ میں جو قتل ہورہاہے، اس پر ان ممالک کے ردعمل اور سردمہری سے سمجھاجاسکتا ہے۔ ان ممالک کو رہی آزادی، خودمختاری اور اظہارخیال کی آزادی کی تو فکر ہے مگر فلسطین کے لوگوں پر کیابیت رہی ہے، اس کی ذرہ برابر بھی پروانہیں ہے۔ یہ وطیرہ افریقی ممالک کے ساتھ ہے، اس وقت پورے یوروپ میں بھی مذہبی طورپر شدت پسند پارٹیوں اور دائیں بازو کے نظریات کی ہوا چلی رہی ہے۔ اسی ہوا میں مغربی ایشیا اور افریقہ کے لوگوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ ان یوروپی ملکوں کی آبادی لگاتار کم ہورہی ہے اوران کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ان ممالک سے ورک فورس حاصل کریں۔ یوروپی لوگ، وقتی سکون، مادّی آسودگی اور جنسی تسکین سے آگے سوچتے نہیں ہیں۔اسی ذہنی کدورتیں اور تنگ ذہنی نے یوروپ کی آبادی کے اضافے کی شرح کو بہت متاثر کیا ہے۔ اکثریوروپی ممالک میں کام کرنے والوں کی کمی ہے اور مغربی ایشیا کے لوگ امن وسکون، مالی آسودگی سے کھلی آب وہوا والے یوروپی ممالک میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے لیبیا، الجیریا، مصر، مراقش اور ساحل خطے کے ممالک سمندر عبور کرکے یوروپ کی سرزمین میںپہنچنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پرلگا دیتے ہیں مگر اب یوروپ میں اور یوروپی یونین کے ممالک میں اس اخلاقی، مذہبی اور ثقافتی گھٹن کی وجہ سے ٹھہراؤآگیا ہے۔
یوروپی ممالک کو لگتاہے کہ کنویں کا مینڈک بن کر اور ہم رنگ، ہم نسل اور ہم مذہبوں کے ساتھ تعلقات میں سختی سے فائدے کا سودانہیں ہے۔ لہٰذا اب یوروپی یونین کاروبار، تجارت اورمعیشت کے فروغ کے لیے جی سی سی جیسی بڑی مارکیٹ پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ جی سی سی ممالک ایشیا کے سب سے بڑے ہتھیار خریدنے والا گروپ ہے۔ دولت اوروسائل کے اعتبار سے یہ مغربی ایشیا کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی وافر خزانے ہونے کی وجہ سے یوروپ کے لیے اوربھی مناسب ہے۔ کیونکہ ان ممالک کے پاس بے تحاشہ وسائل ہیں، دولت ہے، اس سے یہ خطہ ایک آئیڈیل اورمحفوظ مارکیٹ ہیں۔
جی سی سی ممالک آپسی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ویزاحاصل کرنے میں سہولت چاہتے ہیں۔ جی سی سی ممالک میں یوای اے ایک ایسا ملک ہے جس میں یوروپی یونین کے شہریوں کو قلیل مدتی قیام کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی جبکہ سعودی عرب، بحرین، قطر، عمان، کویت کے لیے پانچ سال کی ویزا کا التزام ہے۔ یوروپی یونین جی سی سی ممالک کے ساتھ صاف ٹیکنالوجی، گرین ماحول اور گرین توانائی اورہائیڈروجن کی پیداوار میں تعاون کرکے خطے کو ٹیکنالوجی سے فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ اس خوش گوار ماحول میں یوروپی یونین اپنے مفادات اور پالیسی کو فراموش نہیں کرپاتی ہے۔ یوروپی یونین روس کے خلاف سخت زبان اور پالیسی چاہتے ہیں، یوروپی یونین چاہتی ہے کہ یوکرین میں روس جو یوروپی مقامات پر بم باری کررہاہے، اس کو روکا جائے اور جی سی سی اس کی مذمت کرے مگر مسئلہ فلسطین پر یوروپی یونین کی سردمہری اور اسرائیل کے خلاف سخت زبان کے استعمال سے یونین کو اجتناب ہے۔ اس بات کو قطر کے فرماں روا شیخ تمیم بن حماد الثانی نے کہہ دیا ہے کہ قریبی تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی انصاف کے امور میں دوہرے معیارات ختم ہوں۔جبکہ یونین کی صدر اوسولہ وون ڈیریسن(Uosula Von Deri Lyen) کا اصرار ہے کہ جی سی سی ممالک یوکرین میں قیام امن کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ جبکہ غزہ میں غیرمعمولی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بابت جوزبان استعمال کی گئی، اس میں غزہ اور لبنان پرفکرمندی کا اظہار ہے تو ہے مگر اسرائیل کے لیے ایک مذمتی قرارداد لانے پران کا منہ سوکھتاہے۔n