مہاراشٹر میں سیاست کونسی کروٹ لے رہی ہے

0

جموں وکشمیر اور ہریانہ میں انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کو کافی حد تک بڑھت دے دی ہے۔ ہریانہ کی جیت سے بی جے پی کے حوصلے بلند ہو ئے ہیں ۔ ورکروں میں جوش وخروش بڑھاہے۔ جموں وکشمیر کوئی مکمل ریاست نہیں ہے اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے جس کی قیادت اگرچہ عملی طور پر دیکھا جائے تو لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہی رہنے والی ہے کیونکہ گورنر دہلی کی طرح جموں وکشمیر میں بھی دیگر صوبائی گورنروں سے زیادہ اختیارات رکھتا ہے اور نئے التزامات میں اس کو امن وقانون کی مشینری پر کنٹرول حاصل ہے۔ جبکہ ہریانہ میں صورت حال سیکولر پارٹیوں کے موافق نہیں رہی ہے او رکئی پارٹیاں، میڈیا شخصیات اور مبصرین ای وی ایم سے متعلق اہم مسئلہ اٹھارہے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وہاں پر لگاتار تیسری مرتبہ بی جے پی کی حکومت بن رہی ہے۔
پچھلے اسمبلی الیکشن میں مکمل اکثریت حاصل نہیں کرپائی تھی اور اس کو جے جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانی پڑی تھی۔ جے جے پی کے لیڈر دشینت چوٹالہ نائب وزیراعلیٰ بنائے گئے تھے مگر لوک سبھا الیکشن سے کچھ دن پہلے بی جے پی نے وزیراعلیٰ کو بدل کو نائب سنگھ سینی کو وزیراعلیٰ بنایا اور جے جے پی سے بھی چھٹکارہ حاصل کرلیا ۔ بی جے پی نے آزاد امیدوار وں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی مگر لوک سبھا الیکشن میں اس کا فائدہ نہیں ملا تھا اور بی جے پی لوک سبھا کی 10سیٹوں میں سے پانچ سیٹیں ہار گئی تھی۔ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے پاس 10میں سے 10سیٹیں تھیں۔ اس مرتبہ بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اس جیت کے پس پشت کانگریس کی اندرونی خلفشار اور بی جے پی کی اسمارٹ حکمت عملی بتائی جاتی ہے ۔ مگر اپوزیشن اس کو ووٹنگ میشن کی بازی گری قرار دے رہی ہے۔ بی جے پی نے ہریانہ جیسی چھوٹی ریاست میں جس انداز سے کامیابی حاصل کی ہے وہ آئندہ دو ریاستوں کے انتخابات میں بھی اس کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
ہریانہ میں کامیابی کے بعد اس کے کیڈر میں کافی اعتماد ہے اور جس طرح سے کانگریس اور دیگر پارٹیاں مہاراشٹر میں اپنے مہرے سجارہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ حکمراں اتحاد کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اتحاد مہاوکاس اگاڑی (ایم وی اے) کئی حکمت عملی وضع کرچکا ہے ۔ خاص طور پر وزیراعلیٰ کے عہدے کو لے کر حکمراں اتحاد نے ایکناتھ شنڈے کا نام پیش کیا ہے اس طریقے سے بی جے پی نے ایکناتھ شنڈے کی قیادت والی شیو سینا (ایکناتھ شنڈے) گروپ کو متحد رکھنے کا موقع اور مہلت دونوں فراہم کی ہے۔ اس سے شیو سینا کے روایتی ووٹ بینک بکھرائو کے امکانات کم جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن اتحاد کے لیے ایک ایسا سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے جس کا جواب دینا یا نہ دینا دونوں مشکلات کا سبب ہوسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں مہاراشٹر کے ایک سیاسی لیڈر بابا صدیقی کے قتل نے بھی کئی انمٹ سوال چھوڑے ہیں۔
بابا صدیقی گزشتہ 6ماہ میں مہاراشٹر کی سیاست میں کافی سرگرم ہوگئے تھے ۔ وہ کانگریسی لیڈر تھے اور کئی مرتبہ ریاست میں وزیر رہے تھے مگر پچھلے دنوں فروری 2024میں اجیت پوار کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوںنے حکمراں اتحاد کی پارٹی این سی پی (اجیت پوار)میں شمولیت اختیار کی تھی اور ایک اہم موقع پر اجیت پوار نے ہی ان کے ہی ایک جلسہ میں اقلیتوں کے متعلق کئی اعلانات کیے تھے۔ بابا صدیقی مہاراشٹر کی سیاسی وسماجی زندگی میں کافی سرگرم اور اہمیت کے حامل تھے۔ اجیت پوار ان کو اپنے ساتھ لا کر نہ صرف یہ کہ اپنی پوزیشن مضبوط کرپائے تھے بلکہ انہوںنے حکمراں اتحاد کے لیے اقلیتی ووٹ منتقل کرنے کی کوشش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حکمراں اتحاد ان کے ذریعہ اقلیتی ووٹوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اقلیتی ووٹ اپوزیشن اتحاد مہاوکاس اگاڑی کے ساتھ تھا۔ اودھوٹھاکرے کئی مرتبہ اقلیتوں سے متعلق خوش کن وعدے اور نعرے لگاتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ مہاراشٹر کی سیاست میں شیوسینا جیسی پارٹی جو کہ کئی حلقوں میں اقلیت یا مسلم مخالف سمجھی جاتی تھی ، کے رخ میں اتنی بڑی تبدیلی کا نظرآنا حالات کو تبدیل کرنے والا ہے۔
اپوزیشن پارٹیاں جن میں شرد پوار کی این سی پی اودھوٹھاکرے کی شیو سینا اور کانگریس بھی شامل ہیں۔ کافی حد تک اقلیتوں کی ہمدری حاصل کرتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔ پچھلے انتخابات میں یعنی لوک سبھا کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ مہاراشٹر میں کانگریس پارٹی ایک مضبوط تنظیم کے ساتھ ابھر کر ایک دفعہ پھر قائدانہ رول میں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا تینوں پارٹیوں میں وزیراعلیٰ کے نام پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا ہے اور تینوں پارٹیاں بغیر کسی وزیراعلیٰ کے نام کے میدان میں اتریں گی۔ یہ حکمت عملی شاید اتنی کارگر ثابت نہ ہو کیونکہ اگر اودھو ٹھاکرے جیسے لیڈر کے نام پر اگر کانگریس یا شیو سینا کے علاوہ دوسری پارٹی یعنی این سی پی متفق نہیں ہوپارہی ہیں تو یہ نقصان کا سبب ہوسکتاہے۔
لیڈر کے نام پر عام اتفاق عوام میں یہ میسیج بھیجوانے میں کامیاب ہوسکتا ہے کہ تینوں پارٹیاں حکمراں اتحاد کے مقابلے میں کم متحد ہیں۔ اگرچہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکمراں اتحاد لوک سبھا کے الیکشن میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپایا ہے۔ خاص طور پر این سی پی اجیت گروپ اور ایکناتھ شنڈے کی قیادت والی شیو سینا اپنی پارٹی کو مضبوطی کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب نہیں رہ پائی ہیں۔ یہ صورت حال بی جے پی کو مہاراشٹر میں بالادستی کی طرف ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں مہاراشٹر میں بھلے ہی کانگریس پارٹی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکی ہو مگر اس کو وسیع تر مفادات کے پیش نظر ادوھو ٹھاکرے کے نام کو آگے رکھنا چاہیے تھا۔ مہاراشٹر میں اودھوٹھاکرے ایک معتبر نام ہیں۔
شیو سینا کے اساس گزار بال ٹھاکرے سے جڑے ووٹرز اور جذبات لوک سبھا الیکشن کی طرح اسمبلی الیکشن میں موثر رول ادا کریں گے ۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں بال ٹھاکرے کے نام پر مہا وکاس اگاڑی کو لوک سبھا الیکشن کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں اور ووٹ مل جائیں۔ اودھو ٹھاکرے کی کشش اور اثر کانگریس کے کسی بھی موجودہ لیڈر سے ایکناتھ شنڈے کی شخصی زیادہ موثر طریقہ سے ایکناتھ شنڈے کے مقابلے نظر آسکتی ہے۔ اگاڑی اتحاد شنڈے کو ایک غدار کے روپ میں پیش کرسکتا تھا۔ اگر ہم 2019کے انتخابات کا جائزہ لیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اور شو سینا نے آدھی آدھی سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ مگر اسمبلی الیکشن کے بعد شیو سینا نے این سی پی کانگریس کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ جس کا بدلہ بی جے پی نے 2022میں شیو سینا اور شردپوار کی این سی پی میں تفریق کرا کے، نیا تجربہ کیا تھا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS