پاکیزہ سماج کے بنیادی اصول : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
اللہ تعالیٰ اور نبی آخر الزماں و معلم اخلاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات سے مسلمانوں کا گھر اور ان کا معاشرہ قابل دید اور مثالی بن سکتا ہے جو غیروں کی نظر میں پسندیدہ اور قابل قبول ہوسکتا ہے مگر افسوس مسلمان ان اعلیٰ تعلیمات کو جاننے کی طلب اور شوق سے محروم ہے اور جو جانتا ہے اس پر عمل کرنے سے بے نیاز ہے جس کی وجہ سے آج وہ اپنوں اور غیروں دونوں کی نظر میں معتوب اور مبغوض ہے۔ دعائیں راہ راست کی ہو رہی ہیں مگر بے راہ روی اور غلط روش دل میں گھر کرچکی ہے جو باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ جو لوگ ان کے اندر انھیں راہ راست پر لانا چاہتے ہیں وہ ان کے ظلم و ستم کے شکار ہیں۔ یہ چیز دنیا بھر میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خواہ مصر ہو یا بنگلہ دیش، پاکستان ہو یا افغانستان یا کوئی اور ملک و شہر ہو، قصبہ ہو یا گاؤں ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’میرے رب نے مجھے نو باتوں کی وصیت کی ہے:
اخلاص: (1 ظاہر اور باطن میں اخلاص پر عمل کروں … عدل:(2 خوشی اور غصہ میں عدل کروں۔
میانہ روی: (3 امارت اور غربت میں میانہ روی اختیار کروں … در گزر:(4 جو زیادتی کرے اس سے در گزر کروں۔
عطا :(5 جو محروم کرے اسے عطا کروں … تعلق :(6 جو قطع تعلق کرے (تعلق توڑدے) اس سے صلہ رحمی کروں۔
فکر :(7 میری خاموشی فکر ہو … ذکر : (8گویائی ذکر ہو… عبرت:(9 میری نظر عبرتوں کیلئے ہو۔
آپ غور فرمائیں، اگر گھر میں یا باہر، اپنے معاشرہ میں یا اس کے باہر ان تعلیمات کی مکمل پیروی ہو تو وہ کیسا معاشرہ عالم وجود میں آسکتا ہے، کیا دنیا ایسے گھر اور معاشرہ کی تلاش میں نہیں ہے؟ مگر ہم مسلمان نہ ایسا مثالی گھر اورنہ ایسا دیدہ زیب معاشرہ اپنے سلوک اور کردار سے نہ دکھا پارہے ہیں اور نہ بنا پارہے ہیں۔
سید قطب شہیدؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ہزاروں خطبات، لاکھوں کتابیں، بے شمار جلسے، مذاکراے اور سمینار ایک ایسے خطۂ زمین کے برابر نہیں ہوسکتے جہاں چلتا پھرتا اسلام دکھائی دے جسے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں، چھو سکیں اور چکھ سکیں‘‘۔
موصوف اپنے ایک مضمون ’’محمدؐ بن عبداللہ کی فتح‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’انسانیت اس سے پہلے آشنا نہ تھی۔ اس لئے کہ وہ اس نظریہ کے زندہ نمونہ تھے۔ جو اس وقت کی انسانیت کیلئے اجنبی ہوگیاتھا۔ اس وقت لوگ اس نظریہ پر ایمان لے آئے۔ اس لئے کہ وہ ان لوگوں پر ایمان لے آئے تھے جن میں یہ نظریہ جلوہ گر تھا۔
یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی تھی کہ آپ نے اسلامی فکر کو انسانی شکل میں ڈھال دیا۔ مصحف کے سینکڑوں اور ہزاروں نسخے لکھے۔ لیکن یہ روشنائی کے ذریعہ کاغذ کے صفحات پر نہیں لکھے گئے تھے بلکہ نور کے ذریعہ دلوں پر لکھے گئے تھے۔ لوگوں کو عمل یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اسلام کیا ہے جو اللہ کے پاس سے محمدؐ بن عبداللہ لے کر آئے ہیں۔
اور محمدؐ بن عبداللہ کی آخری کامیابی یہ تھی کہ شریعت اسلامیہ کو زندگی کا بنیادی مرکز اور لوگوں کے معاملات کا حقیقی منظم بنادیا۔
اسلام ایک عقیدہ ہے جس کی بیج سے شریعت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر ایک نظام قائم ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو ایک درخت سے تشبیہ دیں تو عقیدہ اس کا بیج شریعت اس کا تنا اور نظام شرعی اس کا پھل ہے۔تنا بیج کے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتا ۔ اور اس بیج کی کوئی قیمت نہیں جس سے تنا نہ ملے۔ اس تنے کا کوئی فائدہ نہیں جو پھل نہ دے۔ اس لئے اسلام نے ضروری قرار دیا کہ اس کی شریعت ہی زندگی کی حاکم ہے‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اس سے بہت ہی ملتی جلتی بات کہی ہے: ’’ تم اپنے گھروں کو مجلسوسں سے آباد کرتے ہو مگر تمہیں اپنے دل کی اجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے؟ کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کرتے ہو مگر اپنے دل کی اندھیاری کو دوری کرنے کیلئے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈتے۔ تم پھولوں سے گلدستے سجاتے ہو مگر آہ؛ تمہارے اعمالِ حسنہ کا پھول مرجھا گیا ہے۔ تم گلاب کے چھینٹوں سے اپنے رومال و آستیں کو معطر کرنا چاہتے ہو مگر آہ! تمہاری غفلت کہ تمہاری عظمت اسلامی کی عطر بیزی سے دنیا کے مشام روح یکسر محروم ہیں! کاش؛ تمہاری مجلسیں تاریک ہوتیں۔ تمہارے اینٹ اور چونے کے مکانوں کو زیب و زینت کا ایک ذرہ نصیب نہ ہوتا۔ تمہاری آنکھیں رات رات بھر مجلس آرائیوں میں نہ جاگتیں، تمہاری زبانوں سے ماہ ربیع الاوّل کی ولادت کیلئے دنیا کچھ نہ سنتی مگر تمہاری روح کی آبادی معمور ہوتی، تمہاری زبانوں سے نہیں مگر تمہارے اعمال کے اندر سے اسوۂ حسنہ نبویؐ کی مدح و ثنا کیلئے ترانے اٹھتے: فا نہا لا تعمی الابصاری ولکن تعمی القلوب التی فی الصدود، ’’حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے تو آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں پوشیدہ ہیں‘‘(سورہ ق:37)
صحابہ کرامؓ کا معاشرہ کیوں آج تک ہمارے لئے قابل تقلید اور نمونہ ہے، محض اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی وہ کامل اطاعت کرتے تھے، وہ وعظ و نصیحت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ آنحضرتؐ کے وعظ و نصیحت کو کان لگاکر سنتے تھے اور ایک ایک بات پر پورے طورپر عمل کرتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کامل نمونہ تھی اور اس سے سرمو برابر بھی انحراف نہیں کرتے تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ ’’حضور ؐ کی زندگی میں ذکر وفکر، محض مراقبہ وسجود اور فقط تسبیح وتحلیل نہیں۔ وہاں بیویوں سے دلگی بھی ہورہی ہے۔ کبھی بازار میں گھوم کر خریدوفروخت کے آداب بتارہے ہیں۔ کبھی منبر پر وعظ وتلقین فرمارہے ہیں۔ ادھر آنے والے وفود سے گفتگو ہورہی ہے تو ادھر اصول سمجھارہے ہیں۔ کبھی میدان جنگ میں کمان فرمارہے ہیں اور کبھی صلح نامے کی دفعات لکھوارہے ہیں۔ اور کبھی صحن مسجد میں اشعار سن کر تبسم فرمارہے ہیں۔ اور کبھی بی بی عائشہ ؓ کو حبشیوں کا رقص دکھارہے ہیں۔ کبھی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کوئی زبان کھولنے کی جرائت نہیں کرسکتا اور کبھی کسی بڑھیا سے طبیعت مزاح بھی ہورہا ہے ۔ کہیں مقدمات کے فیصلے سنارہے ہیں اور کہیں مزدوروں کی طرح پھائوڑے چلارہے ہیں۔ غرض زندگی کی ساری بوقلمونیاں ایک ذات کے اندر موجود ہیں۔ لیکن ان میں توازن کا حسن اور تناسب کا جمال اپنے پورے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ نہ کہیں کوئی زیادت ہے نہ کوئی کمی۔ زندگی کے جن جن خانوں کو جتنا جتنا پر ہونا چاہئے وہ اتنے ہی پر ہیں۔ کوئی خانہ بھی ایسا نہیں جس میں خلا ہو، یا وہ اتنا لبریز ہو کہ چھلکنے لگے، جلال بھی ہے اور جمال بھی۔ دلبری بھی ہے اور قاہری بھی ۔ اور سب کچھ اپنے ضروری مخصوص توازن وتناسب کے ساتھ یہی وہ حسن وجمال ہے جو سیرت کا نرالا پہلو ہے۔ سیرت کا یہ حسین انداز محمدﷺ کے سوا اور کہیں موجود نہیں اور اگر ہم سے پوچھئے تو یہ محمد ؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ صلی اللہ علیہ واعلیٰ امہ وسلم ۔ اجزائے سیرت کے اس تناسب وتوازن نے ہر ہرجز کو بھی حسن وجمال کا مرقع بنادیا ہے۔ ایسا مرقع کہ ؎
زوقِ تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم … کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست لاکھوں صلوٰۃ وسلام اس صاحب سیرت پر اور لاکھوں سلام ودرود روح مقدس ہستیوں پر جنہوں نے اسے دیکھا۔ اس کی حسین وجمیل سیرت کو دیکھا،پرکھا اپنایا اور ہم تک پہنچایا‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کا معاشرہ تھا اسے آپؐ دیکھ رہے تھے۔ آپؐ فرماتے ہیں: تمہارے اندر بھی گزشتہ امتوں والی بیماری سرایت کر گئی ہے۔ حسد اور نفرت! نفرت تو مونڈ ڈالنے والی ہے، دین مونڈ ڈالنے والے، میں یہ نہیں کہتا کہ بالوں کو مونڈ دینے والی اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے۔ تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک تم باہم محبت نہ کرو، کیا تمہیں ایسی بات نہ بتادوں کہ اگر تم اسے کرو تو ایک دوسرے سے محبت کروگے؟ لوگوں نے کہا: ہاں! اللہ کے رسولؐ! فرمایا تو پھر سلام عام کرو اور صلہ رحمی سے کام لیتے رہو‘‘ (البیان)۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنی امت کے لوگوں کو نیکی اور بدی کی باتوں اور ان کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔ ’’سن لو!دنیا اسی موجودہ ساز و سامان کا نام ہے، جسے نیک و بد سب کھا رہے ہیں اور آخرت ایک حقیقی وقت مقرر ہے جس میں قدرتوں والا بادشاہ (اللہ رب العالمین) خود فیصلہ کرے گا (ایک روایت میں ہے کہ آخرت ایک سچا وعدہ ہے جس میں عادل اور قدرت والا بادشاہ فیصلے فرمائے گا) جن میں حق کو ثابت کر دے گا اور باطل کو باطل۔ آخرت والے بنو، دنیا والے نہ بنو، ہر اولاد اپنی ماں کے پیچھے چلتی ہے۔ تمام کی تمام بھلائی اپنے پیروکاروں کے ساتھ جنت میں داخل ہوگی اور تمام کی تمام برائی اپنے پیروکاروں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوگی۔ پس تم عمل کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور اس بات کا یقین رکھو کہ تمہیں (ایک دن) تمہارے اعمال کے سامنے پیش کیا جائے گا؛ چنانچہ جس نے ایک ذرے کے برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ایک ذرے کے برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا‘‘ (الشافعی)۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت اور طمع سے بچنے کی تعلیم دی:
’’(1 خیانت سے بچو کہ وہ بدترین ساتھی ہے۔ (2 ظلم سے بچو کہ قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا۔ (3 طمع اور لالچ سے بچو کہ اس چیز نے تم سے پہلوں کو غارت کردیا، حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہانے لگے اور انھوں نے اپنے رشتے ناتے توڑ ڈالے ‘‘ (طبرانی اور اوسط وکبیر)۔
آج معاشرہ میں غصہ وروں کی بہتات ہے، جس کو دیکھئے غصے سے بھرا ہوا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مومن کی پہچان بتائی ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو غصہ کو پی جاتا ہے۔ دوسروں کے قصوروں کو معاف کر دیتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے: ’’جان لو؛ لوگ مختلف طبقات میں پیدا کئے گئے ہیں، ان میں بعض تو مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن جیتے ہیں اور مومن ہی مرتے ہیں، اور بعض کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر جیتے ہیں اور کافر ہی مرتے ہیں۔بعض مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن جیتے ہیں اور کافر مرتے ہیں، اور بعض کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر جیتے ہیں اور مرتے مومن ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر آپؐ نے غصہ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جلدی غصہ آتا ہے اور جلدی رفع ہوجاتا ہے ، تو یہ ایک دوسرے کا بدلہ ہوگیا۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن کو دیر میں غصہ آتا ہے اور دیر میں جاتا ہے تو یہ بھی ایک دوسرے کا بدلہ ہوگیا۔ تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جنھیں غصہ دیر سے آئے اور جلدی دور ہوجائے۔ اور بدترین لوگ وہ ہیں جن کو غصہ جلدی آئے اور دیر سے دور ہو۔ فرمایا تم غصہ سے بچتے رہو وہ بنی آدم کے دل پر ایک چنگاری ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ آدمی کی گردن رگیں پھول جاتی ہیں اور آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔ بس جس کسی کو غصہ آوے اس کو چاہئے کہ لیٹ جائے اور زمین پر بیٹھ جائے‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات حکمت و دانش پر مبنی ہیں۔ انہی اعلیٰ تعلیمات سے آپؐ کے دور میں اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں لوگوں نے مثالی اور قابل تقلید معاشرہ دیکھا۔ ہم سب اس کا ذکر کرتے ضرور ہیں مگر کیا ایسا معاشرہ عالم وجود میں آئے، اس کیلئے تگ و دو کرتے ہیں؟ جو لوگ ہاں میں جواب دیتے ہیں اور واقعی ایسے معاشرہ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کیلئے تیار ہیں، یہی لوگ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے سچے عاشق ہیں جو لوگ محض بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔ عمل ان کی زندگیوں سے ندارد ہے۔ وہ آخر کیسے اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے وفادار یا عاشق کہلاسکتے ہیں؟ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں، اللہ کو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی دیوار میں‘‘ (سورہ صف ، آیات:2-4)۔اچھے اور پرکشش معاشرہ کیلئے مومنانہ صفات کی ضرورت ہوتی ہے۔ منافقت معاشرہ کیلئے تباہ کن ہوتی ہے جو کافرانہ معاشرہ سے بھی بدتر اور ظالمانہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS