کہتے ہیں کہ عوام کے ذریعہ عوام پرعوام کی حاکمیت جمہوریت کہلاتی ہے ۔ لیکن ہندستان کے موجودہ نظام حکومت میں جمہوریت کی تعریف بدل گئی ہے ۔ اس بدلی ہوئی تعریف کے مطابق جو جمہوریت ہندستان میں رائج ہے اسے عوام کے ذریعہ عوام پر سرمایہ داروں کی حاکمیت کہاجائے تو بے جا نہیں ہوگا۔تقریباً ایک دہائی سے یہی ہورہاہے کہ نظام حکومت چلانے کیلئے عوام اپنے نمائندے منتخب کرکے انہیں حکمراں بناتے ہیں لیکن یہ حکمراں سرمایہ داروں کی حاکمیت کا قلابہ پہن لیتے ہیں اور وہی قانون اور وہی ضابطے اور معیاربناتے ہیں جوسرمایہ داروں کے مفاد کا نگہبان اور ان کی دولت کے ذخائر میں اضافہ کا ذریعہ بنے ۔کھانے پینے کی معمولی چیزوں سے لے کر بیماروں کی دواتک کی قیمت طے کرنے کیلئے عوام کی استعداد، قوت خریداور ضرورت کو ملحوظ نظر رکھنے کی بجائے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے چشم و ابرو کے اشارے اور ماتھے کی شکن کا خیال رکھاجاتا ہے ۔ یہ عوام دشمنی ڈنکے کی چوٹ پر اورقانون کے نام پرہی کی جاتی ہے اوراس کی دادو فریاد بھی کہیں نہیں ہے ۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اسے عوامی مفاد میں اٹھایاگیا قدم بتایا جاتا ہے ۔تازہ واقعہ زندگی بچانے والی دوائوں کی قیمتوں میںیک بیک50فی صد اضافہ کا ہے ۔نیشنل فارماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی آف انڈیا (این پی پی اے) نے ’غیر معمولی حالات‘ اور’عوامی مفاد‘ کا حوالہ دیتے ہوئے 8 دواؤں کی زیادہ سے زیادہ قیمتوں میں50فی صد کا اضافہ کردیا ہے ۔ اس فیصلے نے فطری طور پر عام آدمی کی مایوسی میں اضافہ کر دیاہے ۔ مہنگی ادویات میں تپ دق سے لے کر دمہ اور تھیلیسیمیا تک کئی مہلک بیماریوںکی دوائیں شامل ہیں۔
کہاجارہاہے کہ ادویات بنانے والی کمپنیوں نے حکومت سے ان دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کا مطالبہ کیا تھا۔اپنے مطالبہ میں دواسازکمپنیوں نے دواسازی کے اجزا کی بڑھتی ہوئی قیمت، بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور شرح مبادلہ میں تبدیلی جیسی مختلف وجوہات کا حوالہ دیا تھا۔ حکومت نے بھی انتہائی سادگی کے ساتھ ان کے مطالبات منظور کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ دوا ساز کمپنیوں کے اخراجات بڑھ رہے ہیںاس لئے دوا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دو اساز کمپنیاں جنرک ادویات کو چمکیلے پیکنگ میں ڈال کر10پیسہ کی دوا2روپے میں اورایک روپیہ کی دوا 35 روپے میں فروخت کرتی ہیں جس کے شواہدریکارڈ پر ہیں۔ یادرہے کہ این پی پی اے مرکزی وزارت کیمیکل اور فرٹیلائزر کے فارماسیوٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے تحت آتا ہے۔ یہ ادارہ 1997 میں ادویات کی زیادہ سے زیادہ قیمتوں کے تعین کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے پاس ضروری اشیا ایکٹ کے تحت حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’ڈرگ پرائس کنٹرول آرڈر‘کے تحت ادویات کی قیمت طے کرنے کا اختیار ہے۔آئین کے مطابق اداروں اور حکمرانوں کو ملنے والے اختیارات کا استعمال عوام کے مفاد میں ہونا چاہئے لیکن ہندستان میں ادارے اپنے ہر اختیار کا استعمال عوام کی مخالفت اور سرمایہ داروں کے مفاد میں کرتے ہیں ۔ 8دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کا یہ فیصلہ بھی اسی طور پر کیاگیا ہے ۔اس سے قبل 2019 اور2021 میں بھی 9 فارمولہ ادویات کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا تھا۔صرف 6مہینے پہلے یعنی پچھلے اپریل میں بھی مودی حکومت نے بیک وقت 800 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی تھی۔
یہ جاننے کے باوجود کہ آج میں ملک میں صحت خدمات کی حالت انتہائی دگرگوں ہے ۔حکومت ہر ایک کو مفت علاج فراہم نہیں کرتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کچھ طبی خدمات دستیاب ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں اور زیادہ تر ادویات مریض کے لواحقین کو باہر سے خریدنی پڑتی ہیں۔ اور یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ باہر سے خریدی جانے والی دوائیںیقینی طور پر مہنگی ہوتی ہیں۔ طبی خدمات بشمول ادویات، پیدائش سے لے کر موت تک ہر عمر کے لوگوں کیلئے ضروری ہیں۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ضرورت سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بزرگوںاور معمر افرادجن کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا ہے انہیں سب سے زیادہ دوائوں کی ضرورت ہوتی ہے جو قیمتوں میں اضافہ کے بعدان کی رسائی سے دور ہوجائیں گی ۔سماجی تحفظ کی جو اسکیمیںحکومت چلاتی ہے ان کا حال بھی دنیا سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔ پنشن کے نام پر بزرگوں کو دی جانے والی مالی امداد ظالمانہ مذاق سے زیادہ کوئی حیثیت نہیںرکھتا ہے ۔
غریب عوام جن کی زندگی میں اب آہوں اورسسکیوں کے علاوہ کچھ نہیں بچاہے، ان پر دوائوں کی قیمت میں اضافہ کا یہ بھاری بوجھ ڈالنا کسی بھی عوام دوست جمہوری حکومت کا کام نہیں ہو سکتا۔ایسے کام صریحاً دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں ۔مودی حکومت یہ دشمنی مسلسل کررہی ہے۔ صرف طب ہی نہیں بلکہ زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں بھی حکومت یکطرفہ طور پر صرف تاجروں اور سرمایہ داروں کے مفاد کی نگہبانی اور ان کی دولت کے ذخائر میں اضافہ کا کام کر رہی ہے ۔
دواکی قیمت میں اضافہ کا فیصلہ انتہائی قابل مذمت ہے اور ناقابل قبول ہے ۔
[email protected]
دوا کی قیمتوں میں اضافہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS