عبد الماجد نظامی
ارض حجاز و نجد جس کا نام 1932 سے مملکت سعودی عرب پڑا ، اس کے مؤسس و بانی کا نام تاریخ میں ہمیشہ جلی حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ انہوں نے موجودہ سعودی عرب کو اپنی بے انتہا دانائی و حکمت عملی سے موجودہ دنیا کی نہ صرف بڑی اکنامی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ اسلامی شعار اور بطور خاص حرمین شریفین کو اسلامی تہذیب و ثقافت کے نشان کے طور پر ان کی حفاظت کی اور مسلمانان عالم کے لیے فخر و امتیاز کا ذریعہ اس ملک کو بنا دیا۔ اس کے بانی و مؤسس اور آل سعود کے ممتاز حکمراں شیخ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود اپنی جنگی مہارت کے ساتھ ساتھ سیاسی قابلیت میں بھی قابل رشک سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے جنگ عظیم اول کے بعد اس دور میں اس خطہ کو استقرار و توازن عطا کرنے کا تاریخی فریضہ انجام دیا جب ایشیا و افریقہ میں سامراجی طاقتوں نے سب کچھ تہس نہس کر رکھا تھا اور ہر طرف بے اطمینانی کی کیفیت پھیلی ہوئی تھی۔ شیخ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کا کردار اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ خطۂ ارضی جس کو مہبط وحی اور مرکز رسالت ہونے کا شرف حاصل ہے، اس کے امتیاز کو کبھی بھی بٹہ نہیں لگنے دیا۔ اس کے برعکس اسلام اور اسلامی عظمت کے تحفظ کو ہمیشہ ہی اپنا نصب العین بناکر رکھا اور اس راہ میں ہر قسم کی قربانیوں کو نہ صرف گوارہ کیا بلکہ اس کو اپنے لیے نشانِ امتیاز کے طور پر استعمال کیا اور آج تک اسلامی شریعہ و عقیدت پر وسعتِ فکر و عمل کے ساتھ کام کرنے میں یہ ملک یقین رکھتا ہے۔ ایسا ہونا فطری بھی تھا کیونکہ آل سعود کی سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ شیخ عبدالوہاب النجدی کی دینی دعوت اور اسلامی غیرت اور عقیدۂ خالص کا عنصر بھی شامل تھا۔ سعودی عرب نے اپنی تاسیس کے روز اول سے ہی اس بات کو حرز جاں بنائے رکھا ہے کہ جہاں ایک طرف بدلتی دنیا کی ضرورتوں کے مطابق اپنی پالیسیوں میں مناسب تبدیلی کرتے رہنا ہے وہیں دوسری طرف اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ گہری وابستگی بھی جاری رکھنی ہے اور اس سلسلہ میں ادنیٰ کوتاہی سے کام نہیں لینا ہے۔ سعودی عرب نے اپنی جدید تاریخ میں کئی موقعوں پر یہ ثابت کیا ہے کہ اس کو حالات کے مطابق مثبت تبدیلیاں اس انداز میں پیدا کرنے کا ہنر حاصل ہے کہ وہ ایک پر اعتماد ماڈرن معاشرہ ہونے کے ساتھ ہی اپنی روایات و اقدار سے عدم دستبرداری کا امتیاز باقی رکھ سکے۔ دنیا کی انرجی اور خام تیل و گیس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری تو اس ملک نے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے اخیر سے لے کر اب تک نبھائی ہی ہے لیکن اسلامی عقیدہ و شریعت کے تحفظ کے میدان میں سرگرم عمل رہ کر دنیا کی روحانی رہنمائی کا فریضہ بھی اسی قوت و جوش کے ساتھ ادا کیا ہے۔ اس خطہ میں جب بھی کبھی سیاسی، سماجی یا اقتصادی مسائل پیدا ہوئے ہیں تو اس میں بھی اپنا کردار ادا کرتے وقت صف اول میں کھڑا نظر آیا ہے۔ مسئلۂ فلسطین ہو یا لبنان کا سیاسی بحران ہر موقع پر اپنی خارجہ پالیسیوں کو بہتر اور مؤثر ڈھنگ سے استعمال کرکے بحران کے بادل کو مزید گہرا ہونے سے بچایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک روایت پسند اور محافظ معاشرہ رہا ہے۔ طویل مدت تک اس پر یہ اعتراض کیا جاتا رہا تھا کہ خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور اس کے لیے خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت نہ دیے جانے والے قانون کا استعمال تنقید کے لیے کیا جاتا تھا، البتہ سعودی عرب نے ان تنقیدوں کی پروا اس وقت تک نہیں کی جب تک اسے خود یقین نہیں ہوگیا کہ اب یہ تقلیدی معاشرہ بڑی تبدیلی کے لیے تیار ہے، لہٰذا نہ صرف خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دی گئی بلکہ ان کے لیے تنہا سفر کرنے کی راہ بھی کھول دی گئی۔ اب زندگی کے ہر میدان میں وسیع تبدیلیوں کے لیے بڑے بڑے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے باضابطہ وژن 2030 کا پلان موجود ہے جس کو 25 اپریل 2016 میں لانچ کیا گیا تھا۔ یہ وژن سعودی عرب کے نوجوان حقیقی حکمراں اور ولی عہد محمد بن سلمان کے خلّاق ذہن کا نتیجہ مانا جاتا ہے۔ اقتصادی و ترقیاتی امور کی کمیٹی جس کی صدارت کا فریضہ ولی عہد نبھا رہے ہیں، اس وژن کی تکمیل کے لیے نگرانی کرتی ہے۔ اس وژن کے تحت بنیادی طور پر 9 پروگرام تیار کیے گئے ہیں جن میں مالی سیکٹر کو ترقی دینا، مالی ترقی کو برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کرنا، پرائیویٹ سیکٹر کے لیے دروازے کھولنا، صحت کے سیکٹر میں بڑی تبدیلی پیدا کرنا، عوام کے لیے بہتر رہائش کا انتظام، انسانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، قومی صنعت اور لاجسٹک سے متعلق خدمات کو بڑھانا، ملکی سطح پرغیر معمولی تبدیلی کو یقینی بنانا اور بطور خاص حجاج و معتمرین کے لیے بہترین وسائل کی فراہمی جیسے پروگراموں کو نافذ کرنا جیسی پلاننگ شامل ہے۔ میں ان دنوں سعودی عرب میں موجود ہوں اور بہت قریب سے ان تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ میں یہ دیکھ پا رہا ہوں کہ اس نوجوان قیادت کی رہنمائی میں کیسے ایک نئی قوت اور جوش کے ساتھ پورا ملک اس وژن یا خواب کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے کوشاں نظر آ رہا ہے۔ ابھی بہت سے پروگراموں اور پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ اس کی شاندار اور مکمل تصویر تو تب زیادہ اچھے ڈھنگ سے ابھر کر سامنے آئے گی جب 2030 میں یہ وژن پایۂ کمال کو پہنچے گا۔ لیکن آج بھی اس کی شعائیں ہر طرف بکھری نظر آتی ہیں۔ سعودی عرب نے بطور خاص اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس کا مکمل انحصار صرف تیل یا دیگر قدرتی ذخائر پر ہی نہ رہے بلکہ قومی اقتصاد کو اتنا متنوع اور موثر بنا دیا جائے کہ اس کے اثرات دیر اور دور تک محسوس کیے جائیں تاکہ آئندہ نسلوں کی ترقی و خوشحالی متاثر نہ ہو۔ تہذیب و ثقافت، آرٹ و کلچر، ٹیکنالوجی و اختراع، انرجی و گیس، کھیل و سنیما، تعلیم و صحت گویا کوئی ایسا گوشۂ حیات نہیں ہے جس کو چھونے اور اس میں حیرت انگیز لیکن مثبت تبدیلی پیدا کرنے کا خطہ تیار نہ کیا گیا ہو۔ اب اس پلان کو زمین پر اتارنے کے لیے مختلف میدانوں کے ماہرین اور اعلیٰ دماغوں کی مدد لی جا رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کو دنیا بھر کے زائرین خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم سبھی محسوس کر رہے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ایک انقلاب بیسویں صدی کے آغاز میں بانیٔ سعودی عرب عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے اس وقت برپا کیا تھا جب منتشر قبائل کو سمیٹ کر انہوں نے ایک نئی قوت میں اس ارض مقدس کو تبدیل کر دیا تھا جس کا وژن کبھی کم نہیں ہوا تو اکیسویں صدی میں اس نئی نوعیت کے انقلاب کا سہرا ولی عہد محمد بن سلمان کے سر باندھا جائے گا۔ تمام تبدیلیوں کی تفصیلات اس مختصر مضمون میں پیش کرنا تو ناممکن ہے لیکن اتنا کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ اس ملک کی قیادت میں بدلتی دنیا کے ساتھ پراعتمادی کے ساتھ چلنے کا حوصلہ اور وسائل دونوں موجود ہیں۔ اس کو اپنوں اور پرایوں کی بہت سی تنقیدوں کا سامنا بھی رہتا ہے لیکن آج تک کون سی ایسی تبدیلی دنیا میں آئی ہے جس کے ناقدین موجود نہ رہے ہوں، البتہ اس کا پورا امکان ہے کہ آج کے ناقدین کل اس کے مداحوں کی صفوں میں کھڑے نظر آئیں گے جب اس کے ہمہ جہت اثرات سے یہ ملک اور عالمی برادری مستفید ہو رہی ہوگی۔
(مضمون نگار روز نامہ راشٹریہ سہارا کے
گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]