محمد غفران نسیم
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام صرف قوم کے نونہالوں کو جدید تعلیم سے واقف کراکے ان کے مستقبل روشن بنانا ہی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ہندوستان کوانگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کا نیک مقصد بھی چھپا ہواتھا۔ہندوستان کی آزادی کے لیے انگریزی زبان کو سمجھنے اور ان کے ارادے کو سمجھنے کے لئے یہ بہت ضروری تھا۔اس مقصد کے لئے تعلیم کی نئی شمع روشن کرنے والے بزرگ، قومی اور سماجی لیڈر، مجاہد آزادی، مورخ، ادیب اور انسان کو سمجھنے اور پرکھنے کا ہنررکھنے والے سرسید احمد خاں نے ایک صدی پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ایک چھوٹے سے مدرسے سے شروع ہوکر نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کی مشہور یونیورسٹی بننے تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، تحریک آزادی سے بھی منسلک رہی اورمسلم یونیورسٹی نے اس ملک کو بڑی تعداد میں مجاہدین آزادی کو دیے۔
مشہور سماجی مصلح سر سید احمد خان نے جدید تعلیمی ادارہ کھولنے میں مختلف مسائل کا سامنا کیا،لوگوں کے طعنے سننا پڑے۔ مخالفین اور حوصلہ شکنی کرنے والوں کاسامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر سرسید نے قوم اور ملک کی ترقی و روشن مستقبل کے لئے اپنے سر کو جھکانہ منظور کر لیا۔ہر روڑے کو ہنس کر ہٹایا،یہاں تک کہ جب وہ ادارے کے لئے چندہ مانگنے نکلے تو لوگوں نے پھولوں کے ہار کے بجائے جوتے پیش کئے۔پھر بھی وہ مایوس نہیں تھے انہوں نے ان جوتیوں کا خیر مقدم کیا اور ان کو فروخت کیا اور اس رقم کو ادارہ کے اخراجات میں صرف کیا۔
سرسید کا خیال تھا کہ دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، تہذیب اورتمدن سب انگریزی زبان میں موجود ہے۔لہٰذا اس کو سمجھنے اوراس پر گرفت مضبوط کرنا ضروری ہے۔ہمیں اس وقت تک انگریزوں سے مقابلے میں کامیابی نہیں ملے گی جب تک ہمیں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے، اپنی بات کہنے اور اس کو منوانے کا موقع نہیں ملتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ان کی زبان یعنی انگریری اور دیگر جدید علم کو سمجھ نہیں لیتے ۔اس خیال کے بعد سر سید نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔تاہم، عوام نے اس مشن کو غلط قرار دیا۔ عوام نے اس تعلیمی ادارہ کو انگریزوں کے اشارے پر قائم کی جانے والی درس گاہ سمجھا۔ جس کا کام صرف انگریز حکومت کے وفادار وںکی ایک پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ ٹیم تیار کرنا تھا۔اسی بنیاد پر عوام نے سرسید کے اس مشن کی مخالفت کی لیکن حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی ۔
سر سیدکا موقف تھا جو قوم اپنے بزرگوں کی خدمات اور قربانی کو فراموش کردیتی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ۔ اس کے لئے، ہمیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں اور خدمات کو یاد رکھنا چاہئے اور اس کے مطابق آگے بڑھنا چاہئے۔سر سید نے ہمیشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھا۔انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت اور ملک کی ترقی کے لئے اس کی ضرورت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا ملک بھارت ایک خوبصورت دلہن کی طرح ہے اور ہندو مسلمان اس کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں۔اگر اس کی ایک آنکھ خراب کردی جائے تو دلہن کانی کہلائے گی، پھر کیا کوئی کانی دلہن کو پسند کرے گا؟
سرسید کو جیسے آنے والے وقت کا اندازہ لگ گیا تھا، انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے قوت سے زیادہ عقل سے کام لینا چاہئے۔ قوم کو ہر میدان میں آگے بڑھایا جانا چاہئے جہاںانگریزوں کا قبضہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آج کے نونہالوں اور کل کے لیڈروں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھایا جائے، کیونکہ تعلیم حاصل کرکے ہی انسان کسی بھی میدان میں دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے اپنی شناخت اور سبقت بنا سکتا ہے۔اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، سر سید ہر احتجاج اور مصیبت کوہنسی سے برداشت کر تے رہے ۔آج وہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے جہاں سے تعلیم مکمل کرکے نکلنے والے لاکھوں ڈاکٹرس، انجینئر، وکیل، افسر، سائٹس اور سیاستدان، پروفیسر اور دانشور نہ صرف ملک میں کامیابی کی منزل کی چھو رہے ہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی ہندوستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں علی گڑھ نے ایک بڑی تعداد مجاہدین کی دی۔ جنگ آزادی کے عظیم سپاہی مولانا محمد علی جوہر، سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین، سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان، ڈاکٹر ظفر علی، جلیا نوالا باغ مخالفت ریلی کے ہیرو ڈاکٹر سیف الدین کچلو، سابق مرکزی وزیر رفیع احمد قدوائی، سید محمود، لیاقت علی، چودھری خلیق الزماں،مولانا حسرت موہانی وغیرہ مشہور مجاہدین آزادی بھی علی گڑھ تحریک سے وابستہ رہے۔تحریک آزادی کی شمع روشن رکھنے والے عظیم مجاہدین میں سے یہ چند نام ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر کو آج بھلا دیا گیا ہے۔
سر سیدنے 1875 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد مدرسۃ العلوم کے طور پر رکھی تھی اور 2 سال بعد یہ مدرسہ جدید تعلیم کے مرکز کے طور پر ’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘ کے طور پر سامنے آیا۔پھر اس نے مسلم یونیورسٹی کی حیثیت حاصل کی ۔علی گڑھ یونیورسٹی سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے والے پہلے طالب علم ایشوري پرساد تھے، اس طرح شروع سے ہی یہ ادارہ سرسید کے مشن کے مطابق ہندو مسلم اتحاد کی مثال رہا۔
علی گڑھ کے اس ادارہ میں ا نگریزوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو اس لئے سرسید نے شروع سے ہی انگریز بالخصوص آکسفورڈ کے تربیت یافتہ اساتذہ کو بھی شامل کیا۔اس طرح دو قوموں کی تہذیبوں اور زبانوں کے ملن سے ایک نئی قوم نے جنم لیا۔جس نے انگریزوں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ یاد کریں علی برادران کے مولانا محمد علی جوہر کی لندن میں ہوئی گول میز کانفرنس کی وہ تقریر ’’ یا تو ہمیں مکمل طور پر آزادی دو یا پھر قبر کے لئے دو گز زمین، اب ہم غلام ہندوستان میں واپس نہیں جائیں گے ‘‘ اس تقریر نے آزادی کے متوالوں میں ایک نئی جان پیدا کردی۔
سر سید نہ صرف ایک رہنما، مورخ اور ادیب تھے بلکہ وہ قوم کے ایک ایسے رہنما تھے جن سے انگریز بھی متاثر ہوئے۔اکثر انگریزانہیںبہت عزت اور احترام کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ انگریز پروفیسر آرنلڈ کے مطابق، ’’تاریخ سے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑے آدمی تو اکثر گزرے ہیں، لیکن ان میں بہت کم ایسے ہوں گے جن میںحیرت زدہ کرنے والی خصوصیات موجود ہوں۔ سر سید ایک ہی وقت میں اسلام کے محقق، تعلیم کے پیروکار، سماجی اصلاحات علمبردار، ادیب اور سیاست داں تھے۔ بھارت میں ایسے شخص کی مثال کہاں ملتی ہے کہ نہ ہی مال و دولت نہ ہی عہدہ و منصب اس کے بعد وہ قوم و ملک کے ہیرو کی حیثیت سے مقبول و مشہورہوئے۔ایک انگریز مصنف تھودر بک کے مطابق، ’’سر سید میں یوں تو بہت سی خصوصیات تھیں لیکن ان میں سب سے زیادہ ان کا اخلاق بلند تھا۔ پورے انگلینڈ اور بھارت میں کوئی بھی نہیں ملا جس نے میرے اندر اپنا احترام اور عزت کو پیدا کیا ہو۔‘‘
غیر مسلم رہنماؤں کی نظر میں سر سید کی جیسی مثال نہیں ملتی ہے۔دادابائی نوریجی کے مطابق، ’’سر سید مکمل طور پر قوم پرست تھے مجھے کئی ذرائع سے علم ہوا کہ اس کا دل ایک قوم کی حیثیت سے پورے بھارت کی ترقی اور خوشحالی چاہتا تھا۔وہ دور اندیش ہونے کے ساتھ ایک محب وطن اور نرم دل شخص تھے۔‘‘ڈاکٹر تارا چندر کے مطابق، ’سر سید ہندو۔ مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔ ان کی نظر میں، ان اتحاد کے راستے میں، مذہب کوئی رکاوٹ نہیں تھا، نہ ہی وہ کسی عقیدہ کے مخالف تھے۔ مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد کے بقول ، ’’سر سید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ میں صرف ایک کالج قائم نہیں کیا، بلکہ وقت کی تمام تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کا ایک ترقی پسند حلقہ بنایا تھا۔ اس حلقہ کا مرکزخود ان کی اپنی شخصیت تھی، جس کے ارد گرد ملک کے بہترین دماغ جمع ہوگئے تھے۔ ہندوستان کے شاید ہی کسی مجلہ نے میرے دماغ کو اس قدر متاثر کیا ہو جیسا کہ سر سید کہ میگزین ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ نے۔مولاناحسرت موہانی اور راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جیسے مجاہدین بھی علی گڑھ کی تحریک میں شامل رہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر طبقہ اور مذاہب کے لوگ سر سید کے مشن سے وابستہ ہوتے گئے اور کامیابی کی منزلیں طے ہوتی گئیں۔ آج قومی انہیں یاد کر رہی ہے۔اگر، سچ میں، ان کے مشن کے ساتھ سر سید کو یاد رکھناہے توپھر عملی طور پر تعلیم کے میدان میں آگے آنا ہوگا۔ یہ نہ صرف آج کی نسل کے لیے سود مند ہوگا بلکہ آنے والی نسل کے لیے بھی۔
سر سید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور تحریک آزادی : محمد غفران نسیم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS