تقریباً ایک دہائی کے تشدد،بدامنی اور جبر کے بعدجموںو کشمیر میںآج منتخب حکومت نے اقتدار سنبھال لیا۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کے نئے وزیر اعلیٰ کے طورپر سری نگر کے شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں وزارت علیا کے عہدہ کا حلف لیا۔ 10رکنی وزارتی کونسل میں سردست پانچ افرادستیش شرما، سکینہ یاتو، جاوید ڈار، سریندر کمار چودھری اور جاوید رانا ہی شامل کئے گئے ہیں ۔ کانگریس نے نئی حکومت کو باہر سے حمایت دینے کا اعلان کرتے ہوئے وزارتی کونسل میں شمولیت سے انکار کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ وضع کرکے خطہ کی تاریخ میںایک نئے باب کا اضافہ بھی کیاگیا ہے ۔جموں خطہ سے پارٹی کا ممتاز چہرہ سمجھے جانے والے سریندرکمار چودھری عمرعبداللہ کی نئی حکومت میں نائب وزیراعلیٰ بنائے گئے ہیں۔
2009 کے بعدعمر عبداللہ کی بطور وزیر اعلیٰ یہ دوسری میعاد ہے۔ تاہم مرکز کی جانب سے 2019 میں خطے کی ’خصوصی حیثیت‘ کو ختم کرنے اور لیفٹیننٹ گورنر کوزیادہ اختیارات دینے کے بعد جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے میں نسبتاً کمزور وزیر اعلیٰ ہوں گے۔لیکن انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ کمزوری عارضی ہوگی اور جموں و کشمیر کومکمل ریاست کا درجہ حاصل ہوجائے گا ۔ایسا ہوگا یا نہیں یہ تو آنے والے وقتوں میں ہی پتہ چلے گا لیکن ریاست میں 10برسوں بعد بننے والی منتخب حکومت سے لوگوں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں ۔ لوگوں کو امید ہے کہ نئی حکومت ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی اور ریاست میں ترقیاتی کام ہوں گے ۔
5 ؍اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔اس کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ریاستی جبر کی نئی تاریخ لکھی گئی ۔ گزشتہ10برسوں سے عوامی نمائندگی سے محروم رہنے والے جموں و کشمیر میں بی جے پی کا ایک نمائندہ ایڈمنسٹریٹربہ الفاظ دیگرلیفٹیننٹ گورنر بن کر حکومت کرتا رہا تھا۔ اس دوران مرکزکی مودی حکومت اوران کی پارٹی بی جے پی نے ترقی کے بلند بانگ دعوے کئے، بہتر معیشت، سیاحت کا فروغ، زراعت میں بہتری اور روزگار میں اضافہ کے وعدے کئے جوپورے نہیں ہوسکے اس کے برعکس جموں وکشمیر ترقی کی شاہراہ سے ہی کٹ گیا۔گزشتہ دس برسوں میں کشمیر کی پرانی روایت، تاریخ، تہذیب و ثقافت سب کچھ مٹانے کی کوشش کی گئی ۔ پوری وادی میں بے اطمینانی پھیل گئی۔ حکومت نے عوام کو دبانے کیلئے اندھا دھند گرفتاریاںکیں، فائرنگ وغیرہ سے لے کر طویل کرفیو اور انٹرنیٹ پر پابندی جیسے کئی ظالمانہ اقدامات کئے ۔ ابتدائی برسوں میں تو پورے خطہ کو ایک جیل خانہ ہی بناڈالاگیاتھا، عالمی سطح پر ہونے والی رسوائی اور بدنامی کے بعد مودی حکومت نے دھیرے دھیرے پابندیاں ختم کیں لیکن عوام کی امنگوں اور آرزوئوں پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ آرٹیکل 370 ہٹا کر ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیر کے لغت سے ترقی اور روزگارجیسے الفاظ بھی ختم کردیئے گئے۔اس بات کی بھی خوب خوب تشہیر کی گئی تھی کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے یہاں کے شہری خوش ہیں اوراس اقدام سے جموں و کشمیرمیں خوشحالی بحال ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے یہاں کچھ حاصل نہیں ہوااس کے برعکس یہاں کے لوگوں کا جو نقصان ہوا وہ 1980کی دہائی کی عسکریت پسندی سے ہونے والے نقصان کے مساوی ہی رہا۔ علاقے میں سیاسی عدم استحکام، تنائوا ور کشیدگی میں جو اضافہ ہو اوہ اپنی جگہ۔
جیسا کہ عمر عبداللہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ مرکزی علاقہ کا یہ درجہ عارضی ہوگاتاہم نئی حکومت کو جموں و کشمیر کیلئے ریاست کا درجہ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، پہلے ہی قوانین میں کئی تبدیلیاں کردی گئی ہیں ۔مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہونے کی وجہ سے نئی قانون ساز اسمبلی اور نئے وزیر اعلیٰ کے پاس، کسی دوسری قانون ساز اسمبلی اور کسی ریاست کے وزیر اعلیٰ جیسے اختیارات بھی نہیںہیں اوراس پر ستم یہ کہ حلف برداری سے عین قبل لیفٹیننٹ گورنر نے بحالیوں سے متعلق دو نئے قوانین بناکر نئی حکومت کے باقی ماندہ پر بھی کتر ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے ساتھ ہی ایک سب سے بڑا چیلنج نئی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کاخدشہ بھی ہے ۔بدنام زمانہ ’آپریشن لوٹس‘ کے فعال کئے جانے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اگرچہ نئی اسمبلی میں پارٹی کی صورتحال کی وجہ سے فی الحال اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن بی جے پی اس حکومت کو گرانے کے طریقے دھونڈتی رہے گی۔
نائب وزیراعلیٰ بناکر عمر عبداللہ نے جموں کے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش بھلے ہی کی ہے لیکن وادی کے لوگوں کا اطمینان اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہاں کی تباہ حال معیشت کو پٹری پر لانے کاکام کیاجائے اور سیاحت، باغبانی، دستکاری وغیرہ جیسے شعبوں کو ترقی دے کرا ن میں روزگار کے امکانات وسیع کئے جائیں جن کا انتخابی مہم کے دوران نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے وعدہ بھی کررکھا ہے ۔لیکن اس میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور چیلنجز آئیں گے۔ مجموعی طور پر جموں وکشمیر کی وزارت علیا عمر عبداللہ کیلئے کانٹوں بھرا تاج ثابت ہونے والی ہے ۔
[email protected]
عمر عبداللہ کے سر پر کانٹوں بھرا تاج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS