خواجہ عبدالمنتقم
جموں وکشمیر میں حالیہ انتخابات میں عوام کی دلچسپی اور بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر میں حالات بہتر ہورہے ہیں اور وہاں کے عوام بھی امن چاہتے ہیں۔ اب مرکزی حکومت کا یہ فرض ہے کہ عوام کے اس جذبے کی قدر کرے اور کشمیر میں امن برقرار رکھنے کے لیے ایسے مثبت اقدام کرے کہ جس سے حالات سابقہ صورت حال کی طرح پھر دوبارہ خراب نہ ہوں۔ ٹیولپ سے گلپوشی پتھر بازی کی جگہ لے لے ، لال چوک پر جو رونق اس وقت موجود ہے اس میں اضافہ ہو اور ارباب مرکزی حکومت یہ بالکل نہ سوچیںکہ کس جماعت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور اپنے مخالف وموافق سیاست دانوں کے ان بیانات کو نظر انداز کریںجو انہیں انتخابی مہم کے دوران کبھی کبھی عوام کو خوش کرنے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے ان کے جذبات ابھارنے کے لیے دینے پڑتے ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر جماعت ہماری اپنی جماعت ہے اور ہر فرد ہمارا اپنا ہے۔ نہ صرف کشمیریوں بلکہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ کشمیر کو ریاست کا درجہ جلد از جلد مل جائے تاکہ عوام کا مرکزی حکومت کے تئیں جو فی الحال کسی حد تک بھروسہ قائم ہوا ہے اس میں مزید اضافہ ہو نہ کہ افاقہ۔ اب تنازعاتی مدعوں پر بحث کرنے کے بجائے بہتر یہ ہوگا کہ کشمیری عوام کو اعتماد سازی کے عملی اقداما ت کے ذریعہ مکمل اعتماد میں لے کر امن و اما ن قائم رکھنے کی ترغیب دی جائے اور انہیں یہ احساس دلایا جائے (حالانکہ یہ احساس تو انھیں خود بھی ہوگا) کہ یہ ملک آپ کا ہے، ترنگا آپ کا ہے، فوج آپ کی ہے، کسی کو کسی کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی کرنے کا حق حاصل نہیں، ہر نو جوان کی زندگی بیش قیمتی ہے، خواہ وہ عام کشمیری نو جوان ہویا فوجی جوان۔ عوام کی بہتری اسی میں ہے کہ تمام فریقین صبر و تحمل سے کام لیں، کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں، جس نے بھی جس پر زیادتی کی ہے وہ اس پر شرمندہ ہو اور ریاست میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ نقل مکانی کرنے والے بھی اپنے گھروں میں واپس آجائیں۔ اب آتش چنار کو جستجوئے آب ہے۔ کسی کو بھی پانی کے بجائے آگ میں ایندھن ڈالنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ بغیر کسی معقول وجہ کے کسی کو غدار نہ کہا جائے اور وہ بھی جب ہمارے نئے تعزیری قانون ’بھارتیہ نیائے سنہتا‘ میں غداری سے متعلق دفعہ شامل نہیں کی گئی ہے اور نہ کسی کی حب الوطنی پر شک کیا جائے اور اگر کوئی صحیح راستے سے بھٹک جائے تو اسے صحیح راستے پر لانے کی کوشش کی جائے۔مزہ تو تب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقی۔
اب ہمیں ایک ایسا کشمیر چاہیے جو ہم نے اب سے کئی دہائی قبل بطور وزارت قانون کے ایک سینئر افسر کے طور پر کئی بار سرکاری دوروں کے درمیان دیکھا تھا۔ ہمیں پھر وہی پرسکون اور خوش حال کشمیر چاہیے جس میں ہمار ے خاندان کی خواتین کشمیر کی سیاحت کے دوران رات کو 10-11بجے تک لال چوک کی رونق دیکھنے کے بعد ڈل گیٹ کے سامنے ہمارے اس ہوٹل میں، جہاں ہمارا قیام تھا ،خوشی خوشی واپس آجاتی تھیں جبکہ ان کے ساتھ اس وقت کوئی مرد تک بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں وہ کشمیر چاہیے جس میں ہمارا دوست اور جموں وکشمیر کے محکمۂ قانون کا ایک سینئر افسر تیج بہادر ہندو جو سری نگر سے بحالت مجبوری اپنے ہی ملک میں ’ہجرت‘ کرنے کے بعد اس وقت جموں میں رہ رہا ہے ،دیگر کشمیری ’مہاجرین ‘کے ساتھ سری نگر واپس آسکے اور ہم اس کے ساتھ پھر ایک باراس کے کشمیر کے پرانے محلے میں اس کے گھر پر بیٹھ کر دہلی کے کسی مہذب خاندان کی طرح دسترخوان پر لگے وازوان کا مزہ لے سکیں اور اپنے پرانے دوستوں اور محسنوں، جن میں 80 کی دہائی کے محکمۂ قانون کے سبکدوش افسران شامل ہیں، سے ان یادوں کے ساتھ مل سکیں۔اب ہمارے کسی ہندو بھائی کو چکبست کا یہ شعر نہ پڑھنا پڑے:
صحن چمن سے دور انہیں باغباں نہ پھینک
تنکے جو یاد گار مرے آشیاں کے ہیں
ہمارے کشمیر سے متعلق مضامین وقتاً فوقتاً مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ہم نے اس سلسلے کا آخری مضمون اس دعا کے ساتھ ختم کیا تھا کہ کشمیر میں بیتے ہوئے دن لوٹ آئیںاور خداوند کریم اس تنازع کے تمام فریقین کو عقل سلیم عطا فرمائے، وہ صبر و تحمل سے کام لیں، جس نے بھی جس پر زیادتی کی ہے اس پر وہ شرمندہ ہو اور باشندگان جموں و کشمیر یہ محسوس کریں کہ جو مزہ کثرت الوجود میں ہے وہ اپنی ایک اینٹ کی عمارت بنانے میں نہیں مگر ہم آج کا مضمون اس دعا کے ساتھ اور اپنی ان یادوںکے ساتھ شروع کر رہے ہیں کہ خدا کرے اس فردوس بر زمیں میںہمیشہ پائیدار امن قائم رہے، ڈل جھیل میں شکارے مچھلیوں کی طرح تیرتے رہیں اور ان میںنئے شادی شدہ جوڑے اٹکھیلیاں کرتے رہیں، ڈل جھیل میں سیاحوں کے قیام کے لیے ہائوس بوٹس پہلے کی طرح آباد رہیں،جھیل کے بیچوں بیچ ڈاکخانہ اور ریستوراںویران نہ رہیں ، سیاح نہروپارک سے چار چنار تک کے شکار ے کے سفر سے لطف اندوز ہوتے رہیں، زعفران و دیگر کشمیری اشیا فروخت کرنے والے اپنے مخصوص انداز میں جھیل میں سیاحوں کو لبھا تے رہیں، نشاط باغ کے پھول اپنی خوشبو بکھیرتے رہیں اوراس کے صدر دروازے کے بالائی جھرنا نما حصے سے پانی ایک مخصوص آواز کے ساتھ اسی طرح گرتا رہے، نشاط میں پھل فروش یہ دعویٰ کر تے رہیں کہ مغل شہنشاہوں نے بھی اس درخت پر آنے والے سیبوں کا ذائقہ لیا تھا، پکنک منانے والے کشمیری حضرات بڑے بڑے ناشتہ دان اپنے ساتھ لاکر وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کا مزہ تو لیتے رہیں مگر اسٹوو نہ جلائیں چونکہ اسے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق قانون کی خلاف ورزی شمار کیا جاسکتا ہے ،،شالیمار باغ میں عجب سی خاموشی اور سکون اسی طرح بنا رہے، چشمہ شاہی کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی(یہاں پر راقم نے اپنی بچیوں کے پہلے روزے کے افطار کا اپنے کشمیری دوستوں کی مدد سے اہتمام کرایا تھا) سب کو نصیب ہوتا رہے ، عقیدت مندبابا رشی کی درگاہ اورچرار شریف جا کر حاضری دیتے رہیں، ہندو صاحبان شنکراچاریہ مندر کے درشن کرتے رہیں، حضرت بل میں حضور اکرمؐ کے موئے مبارک کی زیارت ہوتی رہے۔ شیخ عبد اللہ کے مزار پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری رہے ، پہلگام ،گل مرگ،سون مرگ و ڈکسم مرگ کے خوبصورت مناظر سے سیاح لطف اندوز ہوتے رہیں،تیز بہائو والا اہربل جھرنا اسی طرح بہتا رہے۔ اس وقت ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔چرار شریف سے کچھ پہلے ایک ہندوخاتون ایک بالکل خالی بس اسٹینڈ سے تن تنہا بس میں سوار ہوئی اور مسلمان سواریوں نے کھڑے ہو کر اسے سیٹ دی۔اس وقت کسے معلوم تھا کہ حالات اس طرح کروٹ بد لیں گے کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے گا اور صرف ہمارے کشمیری ہندو بھائی ہی نہیں بلکہ بہت سے بے گناہ یا با گناہ کشمیری نوجوان بھی اپنی جان اور شخصی آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]