عبدالغفار صدیقی
کانگریس ہریانہ میں ایک بار پھر ہار گئی ۔دوسرے الفاظ میں بی جے پی تیسری بار جیت گئی ۔حالانکہ ہریانہ انتخابات کے اعلان سے قبل اور دوران انتخابات نیز مابعد الیکشن کے ایگزٹ پول کہہ رہے تھے کہ کانگریس واضح اکثریت سے فاتح ہوگی ۔لیکن سارے ایگزٹ پول دھرے رہ گئے اور نتائج الٹ گئے ۔نتیجوں کے بعد جائزوں کا دور جاری ہے ۔کانگریس کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی کا الزام دہرایا گیا ہے اور بیلیٹ پیپر سے الیکشن کی مانگ کا اعادہ کیاگیا ہے ۔یہ الزامات غیرمتوقع نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاندلی نہ ہونے دے اور ہر بوتھ پر نظر رکھے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فتح و شکست میں دھونس دھاندلی کا فیصد بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ ہارنے والوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے اوراپنی ہار کے حقیقی اسباب کا پتہ لگانا چاہئے۔
کانگریس کی شکست میں عام آدمی پارٹی نے سب سے بڑا کردار انجام دیا ہے۔ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی اس لیے وجود میں لائی گئی تاکہ ان ریاستوں میں کانگریس کا صفایا کرسکے ،جہاں بی جے پی اس کو شکست دینے میں ناکام رہتی ہے ۔اروند کجریوال کی الیکشن سے پہلے جیل سے رہائی پر سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کجریوال کی رہائی سے بی جے کو فائدہ ہوا ہے۔ہریانہ الیکشن میں عام آدمی کو 1.79فیصد ووٹ ملا ہے ۔اس کا کوئی بھی امید وار دوسرے نمبر پربھی نہیں رہا ۔ کانگریس کو بی جے پی سے صرف اعشاریہ 85فیصد ووٹ کم ملا ہے ۔یعنی ایک فیصد سے بھی کم ۔اگر عام آدمی پارٹی کو ملنے والا ووٹ کانگریس کو مل جاتا تو نتائج ایگزٹ پول کے مطابق ہی ہوتے ۔اگر یہ دونوں جماعتیں مل کر الیکشن لڑتیں تو بی جے پی کو دس سیٹوں سے بھی کم سیٹیں حاصل ہوتیں۔ بدقسمتی سے یہ گٹھ بندھن نہیں ہوسکا۔دونوں پارٹیوںمیں سمجھوتہ نہ ہونا بی جے پی کے لئے سودمند ثابت ہوا۔کانگریس کے اندر صبر اور دور اندیشی کا فقدان نظر آتا ہے ۔وہ ہریانہ میں راہل کی مقبولیت اور ان کے جلسوں میں آئی بھیڑ سے یہ اندازہ لگارہی تھی کہ راہل کا جادو سر چڑھ کر بولے گا ۔اسی غرور میں اس نے انڈیا گٹھ بندھن میں شامل جماعتوں سے کوئی اتحاد نہیں کیا ۔
کانگریس کو اکیلے دم پر الیکشن لڑنے کے لیے انتظار کرنا چاہئے ۔وہ اکیلے دم پر بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتی ۔ہم پارلیمانی الیکشن میں دیکھ چکے ہیں کہ انڈیا اتحاد کے باوجود بی جے پی حکومت سازی میں کامیاب رہی ۔اس نے اپنے مخالفوں سے بھی ہاتھ ملایا اور ابن الوقتوں سے بھی ۔جب کوئی بڑا مقصد سامنے ہوتا ہے اور کسی عظیم مقصد کا حصول پیش نظر ہوتا ہے تو دانشمندایسا ہی کرتے ہیں ۔باوجود اس کے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں شدید قسم کی مخالفت ہے مگر اسے اتحاد کرنا چاہئے تھا ۔دوچار سیٹیں زیادہ دینے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا بلکہ بڑا فائدہ ہوتا ۔آخر کانگریس محض 37سیٹیں جیت پائی باقی 53سیٹیں ہار گئی ۔اگر وہ اپنی اپوزیشن جماعتوں میں پچیس تیس سیٹیں تقسیم کردیتی تب بھی اس کے پاس واضح اکثریت حاصل کرنے کے مواقع میسر رہتے ۔
انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان آپسی انتشار کا ہوتا ہے ۔پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔اپنوں کی ناراضگی غیروں کی ناراضگی سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔ راجستھان ،مدھیہ پردیش اور اب ہریانہ کی ہار کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پارٹی اپنے اندرونی انتشار پر قابو نہ پاسکی ۔کماری شیلجا کی ناراضگی اس کو مہنگی پڑی ۔وقت رہتے ہی اس کا سد باب کرنا چاہئے تھا۔
کانگریس کے لیے یہ اطمینان کی بات رہی کہ اس بار مجلس اتحاد المسلمین میدان میں نہیں تھی ۔اگر کہیں اویسی صاحب مسلم اکثریتی سیٹوں پر پہنچ جاتے تو ان سیٹوں پر بھی نتیجے بدل سکتے تھے ۔ کانگریس کو اویسی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔اگر کہیں بھائی جان میدان میں آجاتے تو کانگریس کی ہار کا سارا الزام ان کے سر چلا جاتا ۔
کانگریس پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہوجانے سے یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ اب اس کے لیے راستہ ہموار ہے ۔جب کہ ایسا نہیں ہے ۔پارلیمانی الیکشن میں اگر انڈیا اتحاد نہ ہوتا تو بی جے پی کو چارسو پار جانے سے کون روک سکتا تھا ۔ کانگریس اپنی جن کمزوریوں کی بنا پر ملکی اقتدار سے بے دخل ہوئی ہے وہ کمزوریاں اب بھی بڑی حد تک باقی ہیں ۔داخلی جمہوریت کے بجائے خاندانی وراثت کا جلوہ اب بھی برقرار ہے اگرچہ کرسی صدارت پر کھرگے جی ہی براجمان ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں کے تعلق سے اس کی پالیسی میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ہماچل میں مسجد تنازع میں کانگریس حکومت کا کردار بہت خراب رہا ۔گجرات میں مساجد، مزارات اور خانقاہوں کی مسماری پر لب کشائی کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ۔پارٹی شاید 1980کے نرم ہندتو کی راہ پر گامزن ہے ۔جب کہ اسے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانی چاہئے، چاہے وہ کسی بھی دھرم کے ہوں ۔صرف اس لیے خاموش رہنا کہ بی جے پی اس کو مسلم پرست کہے گی انصاف کو نظر انداز کردینا غیرمناسب ہے۔
کانگریس نے تقریباً پچاس سال بلا شرکت غیرے ملک پر حکومت کی ۔کوئی اپوزیشن اس کے سامنے نہیں تھی ۔ہر ریاست میں اس کی حکومت تھی ۔اس کو عوام خاص طور پر مسلمانوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی ۔لیکن اس نے اپنے بہی خواہوں کے ساتھ کیا کیا ؟لوگ کہتے ہیں کہ کالج ، یونیورسٹیاں اسی کے زمانے میں قائم ہوئیں، ہوائی اڈے بنے ،ملک کو ایٹمی طاقت حاصل ہوئی ،یہ سب اس لیے ہوا کہ آپ پچاس سال حکمراں رہے ۔لیکن ملک میں بدعنوانی کے واقعات میں اضافہ ، طبقاتی منافرت میں شدت ،مسلمانوں کی پسماندگی ،پرائمری تعلیمی نظام کی بربادی ، کس کے دور میں ہوئی ؟کس کے دور حکومت میں علی گرھ مسلم یونیورسٹی کے لیے لاینحل مسائل کھڑے کیے گئے ؟جس فرقہ پرستی کے سہارے بی جے پی آج حکمرانی کررہی ہے اس کا موقع کس نے دیا ؟ اترپردیش سے اردو میڈیم اسکول کس کے دور حکومت میں ناپید ہوگئے ؟سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی بدترین صورت حال کا ذمہ دار کون ہے ؟مسلم کش فسادات کس کے زمانے میں ہوئے ، میرٹھ، ملیانہ ،ہاشم پورہ ،مرادآباد ،نیلی ، بھاگلپور اور ممبئی کس کے زمانے میں مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوئے ؟ کانگریس اپنے غلط فیصلوں اور پالیسیوںکا جائزہ بھی لے اور اس کا کفارہ بھی ادا کرے۔ موجودہ حکومت کی کارروائیوں کو سند جواز عطا کرنے کے لیے قطعاًنہیںہے۔
ہریانہ میں بی جے پی کی فتح اس لیے نہیں ہوئی ہے کہ اس کے کارناموں سے عوام خوش ہیں ۔چالیس فیصد ووٹ کا ملنا خود یہ ثابت کرتا ہے کہ ساٹھ فیصد ووٹرس اس سے ناراض ہے ۔ہریانہ میں مسلم آبادی صرف آٹھ سے دس فیصد ہے ۔یعنی بی جے پی سے ناراض ووٹرس کی بڑی تعداد غیر مسلم ہے ۔لیکن ہمارا انتشار ان ووٹرس کو یکجا کرنے میں مانع رہا ہے ۔اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر سامنے آتیں تو بی جے پی کے حامی ووٹرس کی قابل قدر تعداد بھی اپوزیشن کے ساتھ آجاتی ۔خیر اب یوپی کے ضمنی اور مہاراشٹر و دہلی کے اسمبلی انتخابات سامنے ہیں ۔کانگریس اور اپوزیشن جماعتوں کو حکمت و دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ان انتخابات میں انڈیا گٹھ بندھن کے بینر پر ہی میدان میں آنا چاہئے ۔ورنہ نتائج اس سے بھی زیادہ برے ہوں گے ۔
٭٭٭