بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک

0

پڑوسی ملک بنگلہ دیش اپنے قیام کے بعد سے سب سے بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ 6ماہ میں بنگلہ دیش میں جو اتھل پتھل، بدنظمی دیکھی گئی تھی اس نے ایک فیصلہ کن شکل اختیارکرلی تھی اور بنگلہ دیش کی منتخب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو عوامی ناراضگی کے سبب ملک چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی۔ اس طرح وہ بنگلہ دیش کی دوسری خاتون ہیں جو زندگی اور عزت کی امان کے لئے ہندوستان میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوئیں۔ اس سے پہلے تسلیمہ نسرین اپنی جان بچاکر کسی نہ کسی طریقے سے ہندوستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ بہرحال 1971میں جب بنگلہ دیش آزادہوا تھا تو اس کی جدوجہد آزادی میں تمام فرقوں اور تمام طبقات نے یکساں رول ادا کیا تھا اور سقوط ڈھاکہ نے یہ ثابت کیا کہ محض مذہب کی بنیادوںپر ملکوںکا قیام مناسب نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس طرح 1947میں محدود نظریات والے طبقات نے پاکستان کے قیام کی ضد پکڑی تھی اس کا نتیجہ تین دہائیوں بعد ہی نظرآگیا اور پاکستان ٹوٹ گیا اور ایک زبان کی بنیاد پر نیا ملک جنوبی ایشیا میں وجودمیں آیا جسے بنگلہ دیش کہتے ہیں۔ شاید یہ دنیا کا پہلا ملک تھا جوکہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والے ایک ملک سے ٹوٹ کر زبان کی بنیاد پر معرض وجودمیں آیا ہو۔ بہرکیف قیام پاکستان، سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال جنوبی ایشیا کی تاریخ کے وہ غیرمعمولی واقعات ہیں جو ناقابل فراموش ہیں۔ آج بنگلہ دیش جو صورت اختیار کرچکا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ وہاں پر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہا ہے وہ اس عظیم بنگلہ روایت کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں ہندوستان نے جو رول ادا کیا تھا وہ بھی اپنے آپ میں غیرمعمولی تھا۔ اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے کہ موجودہ بنگلہ دیش جسے آزادی سے قبل مشرقی بنگال کہتے تھے پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد سے کوسوں دور تھا اوریہ دوری بہت عمیق سمندری دوری تھی جوکہ دونوں خطہ ہائے ارض کو عملی طورپر باندھنے میں ناکام تھیں۔ دونوں قطعہ اراضی کے درمیان جو جغرافیائی فاصلے تھے اس کے علاوہ وہ فاصلے بھی تھے جو زبان اور کلچر سے منسوب تھے۔ دونوں خطوں کی اقتصادی، ثقافتی اور لسانی شناختیں بالکل مختلف تھیں اور یہی وہ فاصلہ تھا جو پاکستان کو ایک نہ کرسکا۔ بہت سے لوگوںکا کہنا ہے کہ قیام پاکستان اور پھر قیام بنگلہ دیش۔ دواکائیوں کا معرض وجود میں آنا پوری دنیا میں مسلم ممالک کی گنتی میں اضافہ کرنے والا ہے۔ مگر یہ محض خام خیالی ہے۔ آج یہ دونوں ملک کمزور ہیں۔ اندرونی خلفشار، نظریاتی اختلافات اور جغرافیائی وثقافتی تقسیم اس قدر گہری ہوگئی ہے کہ ان دونوںملکوںکو اپنا وجود برقرار رکھنے میں کافی چیلنجز کا سامنا ہے۔
پچھلے دنوں شیخ حسینہ واجد کے زوال کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ ملک جس اساس پر قائم ہوا تھا وہ اساس بہت تیزی کے ساتھ کمزورہورہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شیخ حسینہ واجدنے اپنے اقتدارکو برقرار رکھنے کے لئے آئین میں ایسی بڑی تبدیلیاں کی تھیں جن کی وجہ سے لوگ ان سے ناراض تھے۔ خاص طورپر وہ طبقہ جوکہ آئین اور قانون کی بالادستی میں یقین رکھتا ہے۔ اس کو اس بات سے تکلیف پہنچی کہ شیخ حسینہ واجد نے اقتدارپر اپنی اور اپنے مکتب فکر کے لوگوں کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے آئین میں سے ایسے التزامات کو حذف کردیا جوکہ جمہوریت کو کمزورکرنے والے ثابت ہوئے۔ ان ترمیمات سے اقتدار پر انکی گرفت تو مضبوط ہوئی مگران کے حاشیہ برداروںنے وہی تمام غلطیاں کیں جوکسی بھی ایسے جمہوری طورپر منتخب لیڈر کو جوکہ اقتدار کی مضبوطی کی وجہ سے ڈکٹیٹرانہ جبلتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ شیخ حسینہ کے حامیوں اور مکاتب فکر کے لوگوںنے جمہوری اداروں کو جونقصان پہنچایا اس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں جمہوری نظام کمزورہوا اور پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مکمل اور بغیر جوابدہی والے اقتدار اورکنٹرول کی وجہ سے سماج کے کئی طبقات کو جانی اور غیرمعمولی مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ بنگلہ دیش میں ایک طویل عرصے تک شیخ حسینہ حکومت مخالف جذبات پنپتے رہے مگر کئی مرتبہ انتخابات میں جیت حاصل کرنے کی وجہ سے عوامی نیشنل لیگ کی گرفت مضبوط سے مضبوط ترہوتی گئی۔ سیاسی پارٹیاں تمام کوششوںکے باوجود شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو نہیں ہلاپائیں اور جب وہ2008میںپہلی مرتبہ منتخب ہوکر آئیں تو ان کا انتخاب مکمل اکثریت کے ساتھ ہوا تھا مگر وہ بعد کے الیکشن میں کامیاب ہوتی گئیں مگر 2024 کے الیکشن میںجس انداز سے اپنے ملک میں اپنی حمایت کرنے والے خاص خاندانوں اور مکاتب فکرکے لوگوںکو ملازمتوں میں ریزرویشن دینے کا التزام کیا اس سے سماج کا سب سے طاقتور طبقہ یعنی نوجوان ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اس کو یہ لگا کہ اگر یہی اوراس قسم کے انداز سے خاص خاندانوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو غیرمناسب طریقے سے ریزرویشن دے کر ملازمتوں میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت مل گئی تو ان کا مستقبل تاریک ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 1971-72کے درمیان جن لوگوں نے غیرمعمولی خدمات انجام دی تھی ان کا تعاون ناقابل فراموش ہے، لیکن ماضی کی کمزوربنیادوںپر مستقبل کی تعمیر کا عندیہ مناسب نہیں تھا۔ کوئی بھی ترقی پسند اورکھلے ذہن کا سماج اپنے نوجوانوںکو محنت ومشقت کرنے ، اعلیٰ تعلیم اور صلاحیتیں حاصل کرنے والوںکو بہتر مواقع فراہم کرتا ہے۔ اگر سرکاری مشینری میں خاص طورپر اعلیٰ بیوروکریسی میں اس طرح کے التزامات کئے جاتے ہیں تو اس سے ملک کی انتظامی مشینری کو کمزورہونے اور جانبدارانہ اورمتعصبانہ رجحان کے مضبوط ہونے کے آثار پیدا ہوتے ہیں۔ طلبا شیخ حسینہ واجد کے ان التزامات سے ناراض تھے اورانہوںنے غیرمعمولی طریقے سے ایک ایسی تحریک کو چھیڑدیا جس نے بہت کم وقت میں وہ کچھ کردکھایا جوکہ مذہبی اورنظریاتی گروپوں کی منظم کوششوںسے ہی ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ سماج کے سب سے تعلیم یافتہ طبقات نے حکومت کے خلاف اس تحریک کو وہ جلا دی جس کا فائدہ بنگلہ دیش کے ان طبقات کو ہوا جوکہ گزشتہ کئی سال سے شیخ حسینہ واجد کے لئے مشکلات پیدا کرنے میں ناکام تھے۔ ملک کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں احتجاج کے وہ سلسلہ دکھائی دیے جن کوکنٹرول کرنا مشکل ہوگیا۔ شیخ حسینہ واجد نے وہی تمام حربے اختیارکئے جوایک بظاہر مضبوط مگرحقیقتاً کمزور ڈکٹیٹر کرتا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کے ذریعہ ان احتجاجوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی، احتجاجوں میں نوجوانوں کی ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر طلبا کی گرفتاری سے یہ تحریک اور مضبوط ہوئی، نوجوانوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی دیکھ کر ایک وقت وہ آیا کہ فوج نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے اورشیخ حسینہ کو ایک فیصلہ کن انداز میں پیغام ارسال کردیا گیا کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ ملک میں برسراقتدار رہ سکیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ کسی بھی ملک میں اقتدار کی کشمکش ، حالات کے اتارچڑھائو فطری ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے جو اپنے اقتدارکومضبوط کرنے کے لئے غیرآئینی التزامات کئے تھے ان پر نظرثانی ہورہی ہے اوراس وقت بنگلہ دیش میں ایک نگراں انتظامیہ کام کر رہا ہے جس کی سربراہی ایک ماہر اقتصادیات اورنوبیل انعام یافتہ محمدیونس کر رہے ہیں۔ محمدیونس ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لیڈر ہیں۔ ان کو آج کے حالات میں کہ جب سماج کے شرپسند عناصر بنگلہ دیش کے سماجی تانے بانے کو کمزورکرنے کی کوشش کر رہے ہیں اپنی ذمہ داری بحسن وخوبی پوری کرنی چاہئے۔ بنگلہ دیش کا سماج ایک متنوع اور ترقی پذیرسماج ہے جہاں مختلف نظریات کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ہندو بھی اس ملک کی عظیم وراثت ہیں اورقیام بنگلہ دیش میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اگر انہوںنے اس نازک وقت میں بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوںکا مظاہرہ نہیں کیا تویہ عظیم ملک بدترین بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہندوئوں، عیسائیوں اور بودھوںکے ساتھ یکساں سلوک کرے اور ان کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS