قاعدے کی ر وسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سطور میں آج الیکشن کمیشن کی جانب سے مہاراشٹرا ور جھار کھنڈ اسمبلی انتخاب کے اعلا ن پر بات کی جاتی اور سیاسی جماعتوں کی جیت ہار کے امکانات زیربحث آتے۔لیکن اس سے بھی زیادہ چند ایسے اہم واقعات ان دنوں پیش آئے ہیںجن پر میڈیا حلقوں میںکوئی بات نہیں کی گئی اور نہ ان واقعات کو مطلوب کوریج مل سکا ہے حالانکہ یہ واقعات براہ راست جمہوریت،اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی بالادستی سے جڑے ہوئے ہیں۔
پہلا واقعہ مقتول صحافی گوری لنکیش کے قاتلوں کی ضمانت پر رہائی اورشدت پسند ہندوئوں کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کرتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دینے کا ہے۔گوری لنکیش ایک پرعزم اور نڈر صحافی تھیں۔ ان کا قلم ہمیشہ فرقہ واریت، تعصب اور توہم پرستی کے خلاف شمشیر برہنہ بنا رہا تھا اور یہی ان کے قتل کی وجہ بھی بنا۔شری رام سینا سمیت کچھ بھگوا تنظیموں نے انہیں منظر نامہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔ 5 ستمبر 2017 کو انہیں بنگلورو میں ان کے گھر کے دروازے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔صورتحال کی تحقیقات کیلئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔اس قتل کیس کی چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ قتل ایک ’منظم جرم‘ تھا جو ایک انتہا پسند دائیں بازو کی ہندوتو تنظیم سناتن سنستھا سے وابستہ لوگوں نے کیا تھا۔ قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں 17 افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن بعد میں ایک ایک کر کے ملزمان ضمانت پر رہا کیے جاتے رہے۔ 12 افراد کو پہلے ہی رہا کیا جا چکا تھا۔اب اس قتل کے الزام میں گزشتہ 6 برسوںسے جیل میں رہنے والے پرشو رام واگھ مارے اور منوہر یادوے کوبھی بنگلورو کی سیشن عدالت نے ضمانت دے دی اور 11 اکتوبر کوانہیں باضابطہ طور پر جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اگلے دن ملزمین نے ایک مندر میں پوجا کی اور وہاں ان کیلئے اسٹیج سجایاگیا، بعد میں سنگھ پریوار اور شری رام سینا کے ارکان نے ان کااستقبال کیا، گل پوشی کی، شال پہنائی اور انہیں باقاعدہ ہیرو بتایااور یہ سب کرتے ہوئے اس پر انہوں نے اپنے فخر کا بھی اعلان کیا۔
معاشرے کو اندھی توہمات سے نکال کر عقل اور انصاف کی روشنی دکھانے کا عزم رکھنے والے عقلیت پسند ہمیشہ سے ہندوتو کے نشانہ پر رہے ہیں۔سیاسی ہندوتو ایسی بنیاد پرست اور جنونی ہندوتو تنظیموںاور افراد کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتا ہے جو روشن خیال اور عقلیت پسند وں کو منظرنامہ سے غائب کرنے کا کام کرتے ہیں۔پرشو رام واگھ مارے اور منوہر یادوے کی ’عزت افزائی‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دوسرا واقعہ10برسوں تک ناانصافی اورظلم کا شکار رہنے والے شاعراور انسانی حقوق کے کارکن و دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی باباسے متعلق ہے۔ سائی باباکا ہفتہ کی رات حیدرآباد کے نمس اسپتال میں انتقال ہوگیا۔تقریباً 10 سال تک قومی سلامتی ایکٹ کے تحت الزامات کا سامنا کرنے والے پروفیسر سائی بابا کو اسی سال مارچ کے مہینہ میں بامبے ہائی کورٹ نے الزامات سے بری کر دیا تھا۔سائی باباکا کیس متاثرین کے حق میں آواز اٹھانے والے کسی بے گناہ کو کس حد تک تشدد کا نشانہ بنایاجاسکتا ہے، اس کی بدترین مثال ہے۔ جسمانی اعتبار سے 90 فیصد معذور سائی باباپر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ماؤنوازوں سے روابط رکھتے ہیں اور ریاست کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ 2013 میں ہیم مشرا، مہیش ٹرکی، پی نروٹے، پرشانت راہی وغیرہ کو گڈچرولی پولیس نے ماؤنواز سازش کے تحت گرفتار کیا تھا۔ سائی بابا کو بھی اس میں ملوث ہونے پر پکڑا گیا تھا۔ ان کے پاس سے نکسلی لٹریچر برآمد ہونے کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔اس کے بعد آنے والی کہانی ہندوستانی عدلیہ کی حالت زار کی ایک کہانی ہے جو یہ تصدیق کرنے کیلئے کافی ہے کہ حکومت ایک بار قانونی جال میں پھنس جانے والے ایک بے گناہ کی زندگی کتنی آسانی سے برباد کر سکتی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا کہ سائی بابا نے ملزمین کو ماؤنوازوں سے ملوایا تھا۔فالج زدہ سائی بابا کومقامی عدالت نے قومی سلامتی قانون(یو اے پی اے) کے تحت قصوروار ٹھہرایا۔ سپریم کورٹ نے خرابیٔ صحت کی بنیاد پر انہیں ضمانت دے دی لیکن بعد میں بامبے ہائی کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے ضمانت منسوخ کر دی اور انہیں خودسپردگی کرنے کو کہا۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 2017 میں انہیں رہا کر دیا، لیکن یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان کئی عدالتی پیچیدگیوں سے گزرتے ہوئے انہیں برسوں جیل میں گزارنے پڑے۔ان کی موت نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان میں نہ صرف ریاست کی طرف سے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے بلکہ عدالتی عمل سزا سے بھی بدتر ہے۔
اگر کسی کو محض نظریاتی عقیدے کی بنیاد پر اتنا عرصہ جیل میں رکھا جائے کہ وہ ملک کے خلاف سازش میں ملوث ہے تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کسی نظریے کی حمایت یا مخالفت کسی کی گرفتاری کی وجہ نہیں بن سکتی۔چاہے وہ سائی بابا ہو یا عمرخالد۔ حکومت سے مختلف خیالات رکھنا جمہوری نظام کا ایک حصہ ہے اور جدید دور کا ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول بھی ہے۔ یہ صورت حال ملک اور جمہوریت کے خلاف ہے۔
جیلوں میں انسانی وقار کی بحالی کی بات کرنے والی عدلیہ کو اس پر بھی غور کرناچاہیے کہ سزا سے بدتر ہوچکے عدالتی عمل سے بے گناہوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔
[email protected]
جنونی ہندوتو۔۔۔نظریاتی اختلاف اور عدالتیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS