شاہد زبیری
ہریانہ اور جموں وکشمیر اسمبلی کے انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہریانہ میں کانگریس کی ہار کو تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار اپنے اپنے زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔ گودی میڈیا حسبِ عادت کانگریس کی ہار اور بی جے پی کی جیت پر بغلیں بجا رہا ہے اور بی جے پی کے مائیکرو مینجمنٹ کے قصیدے پڑھ رہا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہریانہ میں کانگریس نے جیتی ہوئی بازی ہاری ہے وہ بھی محض 0.85 فیصد کے تناسب سے۔اگر عام آدمی پارٹی کو ملنے والے 1.79فیصد ووٹ کانگریس کو مل جاتے تو کانگریس کی جیتی ہوئی بازی نہ پلٹتی۔کوئی مانے یا نہ مانے کانگریس کو ’اکیلا چلو‘ کی پالیسی نے دھول چٹائی ہے اورکانگریس اپنوں کے نشانہ پر آگئی ہے۔شیوسینا، ترنمول کانگریس نے جہاں کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنا یا ہے، سماجوادی پارٹی نے یوپی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی کل 10 سیٹوں میں سے کانگریس کی منشاء کے خلاف اپنے6 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ 10میں سے5سیٹو ں پر کانگریس کی دعویداری ہے۔
2024کے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے جس طرح ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر انتخاب لڑا تھا، اس نے بی جے پی کے چھکے چھڑادیے تھے، لیکن اب اس کا اثر زائل ہوتا دکھا ئی دے رہا ہے۔مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے انتخابات پر بھی اس کا اثر پڑنا طے ہے۔شیوسینا (ٹھاکرے) نے ہریانہ میں کانگریس کی ہار کے لیے ’اکیلا چلو‘ کی پالیسی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تو ترنمول کانگریس کو کانگریس کی انا نیت کا گلہ ہے اور تو اور نیشنل کانفرنس کے عمرعبداللہ بھی چپ نہیں رہے، انہوں نے کانگریس کی قیادت کو اپنا احتساب کرنے کی صلاح دی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی جھاڑو نے بھی کانگریس کا صفایا کیا ہے، جو ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملے ہیں اتنے ہی ووٹ کانگریس کو مل جاتے تو بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھر جاتا باوجود اس کے عام آدمی پارٹی کے منیش سسودیا کانگریس پر غصہ اتاررہے ہیں۔کانگریس پر اس کے اپنوں کا الزام ہے کہ کانگریس جہاں خود کو مضبوط سمجھتی ہے، وہاں اپنے ساتھیوں کو بھائو نہیں دیتی اور جہاں کمزور ہے وہاںکانگریس اپنا ہاتھ پھیلا دیتی ہے اور حصہ مانگتی ہے۔اصل میں کا نگریس سمجھتی ہے کہ جن ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں جن کے ساتھ اس کا اتحاد ہے، وہ اس کی زمین پر کھڑی ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن کانگریس کو جتنا جلد ہو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فاختہ اڑانے کے اس کے دن گئے۔ علاقائی پارٹیوں کی ملک کی سیاست میں آج اپنی ایک اہمیت ہے، یہ بات کانگریس کو ذہن نشین کرلینی چاہیے۔ ’انڈیا‘ اتحاد کہنے کو نہیں ہو نا چاہیے عمل سے بھی ا تحاد دکھنا چاہیے۔ کانگریس کی ہریانہ کی ہار نے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے وجود پر سوال کھڑے کر دیے ہیں اور کہیں مٹھی نہ کھل جائے اس کا اندیشہ ہے۔اس ہار پر اس لیے بھی سوال کھڑے ہونے لازمی ہیں کہ ہریانہ میں 80فیصد کسان ہیں، کسانوں کے ساتھ بی جے پی کی کھٹر سرکار ہو یا سینی سرکار دونوں نے ظلم ڈھائے ہیں اور یہ 80فیصدکسان کیا بی جے پی کے پالے میں چلے گئے؟ کانگریس نے خاتون پہلوانوں اور اگنی ویر کے ایشو کو بھی زور شور سے اٹھا یا تھا۔ 10سال سے بی جے پی اقتدار میں ہے، عام آدمی سرکار سے ناراض دکھائی پڑتا تھا لیکن یہ ناراضگی بھی ہوا ہو گئی اور incumbency factor کہاں گیا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہریانہ میں کسی پارٹی نے ہیٹ ٹرک ماری ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں دلتوں نے اپنا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈالا تھا اور کچھ پسماندہ برادریوں کا ووٹ بھی کانگریس کے کھاتہ میں گیا تھا اور کانگریس نے لوک سبھا کے انتخاب میں ہریانہ میں اپنی دھاک جمائی تھی،اس دھاک کو کانگریس سنبھال کر نہیں رکھ پائی۔رہی سہی کسر جاٹ بنام دیگر طبقات نے پوری کردی۔ دلت اور پسماندہ برادریاں جنہوں نے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی جھولی میں ووٹ ڈالے تھے، بی جے پی نے ان کو کانگریس کے خلاف صف آرا کردیا اور ان کے دلوں میں جاٹ غلبہ کا ڈر بٹھانے میں وہ کامیاب رہی اور جاٹ چہرہ سامنے رکھنے کا نقصان کانگریس کو اٹھا نا پڑا۔کانگریس نے اپنے ووٹوں کی تجوری سابق وزیراعلیٰ بھوپیندر ہڈا کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔90ٹکٹوں میں سے 72ٹکٹ تنہا ہڈّا نے اپنے ہاتھ سے بانٹے۔ الزام ہے کہ انہوں نے خوب بندر بانٹ کی لیکن اس بندر بانٹ میں بھی تاخیر کردی، پرچہ نامزدگی جمع کرنے کی آخری تاریخ تک کانگریس کے ٹکٹ بانٹے جاتے رہے۔کانگریس کے اندر کی رسہ کشی نے کانگریس کی ہی ڈور کاٹ دی۔ کانگریس کی دلت ایم پی کماری شیلجا اور بھوپیندر ہڈا میں ٹھنی ہوئی تھی، ہر چند کہ راہل گاندھی نے دونوں کے ہاتھ ملوادیے لیکن دونوں کے دل نہیں ملے تھے۔ کماری شیلجا اسمبلی کا انتخاب لڑنا چاہتی تھیں لیکن پارٹی نے ان کو ٹکٹ نہیں دیا باوجود اس کے وہ خود کو ہریانہ کے وزیراعلیٰ کی دعویدار ہونے کا ڈھول آخر تک پیٹتی رہیں۔ شروع کے دنوں میں وہ پارٹی کی انتخابی مہم سے دوررہیں اور بعد میں بھی 10سے 15اسمبلی حلقوں تک ہی خودد کو محدود رکھا،بی جے پی نے اس کو بھی کیش کیا اور دلتوں کو یہ احساس کرانے میں بی جے پی کامیاب رہی کہ جاٹ لابی کے سامنے دلتوں کی چونی نہیں اٹھتی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دلت ووٹ بی جے پی کھاتہ میں چلا گیا۔حالانکہ کانگریس جاٹ،دلت اور مسلم کو یکجا کیے جانے کا احساس دلاتی رہی لیکن اس کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب دلت اس سے کھسک کر بی جے پی کے پالے میں چلے گئے۔لوک سبھا انتخابات میں دلت کا نگریس کے ساتھ کھڑے تھے اور کانگریس دلتوں اور دیگر پسماندہ برادریوں کو یہ احساس کرانے میں کامیاب رہی تھی کہ بی جے پی اقتدار میں آئی تو امبیڈ کر کا بنایا ہوا ہندوستانی آئین ختم کردیا جائے گا اور بچا کھچا جو ریزرویشن ہے، دلت اور پسماندہ طبقات اس سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اسمبلی انتخابات میں دلتوں اور پسمادہ طبقات کو رجھانے کیلئے کانگریس کے پاس کچھ تھا ہی نہیںکہ جس سے دلت اور پسماندہ طبقات کانگریس کے پلّو سے بندھے رہتے، یہ افتخار تو صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی ایجنڈے کے بغیر اپوزیشن جماعتوں کے کہار بنے رہتے ہیں اور ان کی ڈولی ایوانِ اقتدار تک لے جاتے ہیں، بدلے میں کچھ نہیں چاہتے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کانگریس نے جہا ں جاٹ ووٹ کا پولرائزیشن اپنے حق میںکیا تو بی جے پی بھی غیر جاٹ ووٹ کا پولرائزیشن اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہی ۔کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ کانگریس کے اندر جو سنگھ کی لابی روزِ اوّل سے رہی ہے، اس نے بھی ہر یانہ میں بی جے پی کی چاندی کی۔ اس سے پہلے اسی کالم میں ایک سے ز ائد مرتبہ کانگریس میں سنگھ لابی کی سازشوں کی طرف اشارے کیے جاتے رہے ہیں۔ ہماچل میں کانگریس کی سنگھ لابی نے سنجولی کی مسجد کا جو کارڈ کھیلا تھا، اس کا اثر ہریانہ کے ان اسمبلی حلقوں پر بھی پڑا ہے جن کی سرحدیں ہماچل سے ملتی ہیں، یہاں بی جے پی نے کامیابی درج کرا ئی ہے۔ کانگریس اس لابی کو پہچان نہیں پارہی ہے یا اس کی سیاسی طاقت کے سامنے بے بس ہے۔ اگر کانگریس کو سنگھ کی لابی سے پاک نہیں کیا گیا اور کانگریس کی اوور ہالنگ نہیں کی گئی تو یہ گھر کے بھیدی اسی طرح کانگریس کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ جموں وکشمیر کی اگر بات کریں تو یہاں تنہا جموں میںبی جے پی کو 29اور کانگریس کو صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی ہے جن لوگوں کی نظریں ہریانہ اور جموں و کشمیر کے انتخابات پر رہی ہیں،ان کو معلوم ہے کہ نیشنل کانفرنس نے کانگریس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جموں کو سنبھال لے اور وادی کی ذمہ داری نیشنل کانفرنس پر چھوڑ دے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم اچھی بات یہ رہی کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے محبوبہ مفتی اور ان کے اتحاد میں شامل چھوٹی پارٹیوں کو نہ دے کر ووٹ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کی جھولی میں ڈال دیے،ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ اس کا فائدہ بھی بی جے پی کو پہنچ جاتا اور محبوبہ مفتی بی جے پی سے پھر ہاتھ ملاکر جموں وکشمیر میں بھی اقتدار کے مزے لوٹتیں۔ یہاں شکست فاش کے باوجود ہریانہ میں ہیٹ ٹریک بنانے سے بی جے پی کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔اب اس کی نظریں مہاراشٹر اور جھاڑ کھنڈ کے علاوہ یوپی کے ضمنی انتخابات پر لگی ہیں۔ مہاراشٹر کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا اورپوار کی نیشنل کانگریس سے زیادہ سیٹیں جیتی تھیں اور کانگریس ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، ہریانہ کی ہار سے مہا راشٹر میں اس کی دعویداری کمزور ہوئی ہے۔ کانگریس کو اپنا احتساب کرنا اور ہار سے سبق لیناچاہیے۔
[email protected]