صبیح احمد
اسرائیل کی حالیہ تکنیکی کامیابیاں اگرچہ متاثر کن ہیں، لیکن انہیں تزویراتی (اسٹرٹیجک) کامیابیاں قطعی نہیں کہا جا سکتا جو درحقیقت نیتن یاہو چاہتے ہیں۔ حزب اللہ کی قیادت کے کچھ حصوں کو تباہ کرنے کے باوجود اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) اپنے بنیادی مقاصد میں سے ایک کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور وہ ہے شمالی اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے حزب اللہ کو دریائے لیتانی کے شمال میں دھکیلنا۔ اس ناکامی نے اسرائیلیوں کو اپنے گھر واپس جانے سے قاصر کردیا ہے، کیونکہ علاقے میں حزب اللہ کی موجودگی اور صلاحیتیں برقرار ہیں۔ حالیہ دنوں میں حزب اللہ نے اسرائیل پر اپنے حملوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے، اسرائیلی سرزمین پر اندر گھس کر شدید حملہ کیا ہے اور اسرائیل کے زمینی حملے کو کافی حد تک پسپا بھی کیا ہے۔ ایک اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے دوران کم از کم 8 آئی ڈی ایف فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں جس کے نتیجے میں آئی ڈی ایف کی پسپائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ حزب اللہ کے حالیہ ڈرون حملے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔
دریں اثنا حماس نے غزہ میں اپنی ثابت قدمی اور پھر سے کھڑا ہونے کی لچک کا مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے، وہ باقاعدگی سے اسرائیلی افواج پر حملے کر رہی ہے۔ ایک سابق اسرائیلی جنرل نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ حماس نے اسرائیلی افواج کے انخلا کے ’15 منٹ‘ کے اندر ہی قصبوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، جس سے گروپ کے استحکام و پائیدار طاقت اور کسی بھی علاقے میں دیرپا کنٹرول کو یقینی بنانے میں اسرائیل کی تکنیکی حصولیابیوں کی حدوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ وسیع تر علاقائی تناظر اسرائیل کے مقاصد کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ ایران جو نام نہاد ’مزاحمت کے محور‘ کا ایک مرکزی کھلاڑی ہے، نے کافی نقصان پہنچانے والے اپنے میزائل حملے سے ایک بار پھر اسرائیل کے جدید ترین فضائی دفاعی نظام کو نظرانداز کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ویڈیوز گردش کر رہے ہیں جس میں متعدد میزائلوں کو اثرانداز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس سے ایران کے ساتھ باضابطہ لڑائی کی صورت میں چکائی جانے والی قیمتوں پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ تہران کا مقصد ایک نیا مزاحمتی (ڈیٹرنس) توازن قائم کرنا ہے، جو فی الحال اسے اس وقت تک کے لیے حاصل ہو گیا ہے جب تک کہ اسرائیل مستقبل قریب میں ایران پر کوئی بڑا جوابی حملہ نہیں کرتا۔ حالانکہ اگر یہ توازن قائم ہو بھی گیا ہے، تب بھی غزہ اور لبنان میں لڑائی جاری رہنے تک یہ انتہائی غیر مستحکم اور عارضی ثابت ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حالانکہ اپنے مخالفین کے خلاف فضائی طاقت اور انٹلیجنس کے معاملے میں اسرائیل کا غلبہ غیر متنازع ہے، لیکن اس برتری کا زمینی جنگ میں پوری طرح فائدہ نہیں ملنے والا ہے ، جہاں صورتحال کہیں زیادہ چیلنجنگ ہوتی ہے۔ حزب اللہ کی ’لچک‘ جو اس کے مسلسل حملوں اور اسرائیلی زمینی حملے کی کامیاب پسپائی کے ذریعہ ظاہر ہوئی ہے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل کو دیرپا علاقائی اور فوجی فوائد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سے اسرائیل کے وسیع تر اسٹرٹیجک مقاصدکی حصولیابی، جیسا کہ حزب اللہ کو دریائے لیتانی کے شمال میں دھکیلنا، بہت حد تک ناممکن سی لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے مخالفین ایک غیر متناسب جنگ چھیڑ رہے ہیں، ایک ایسی حکمت عملی جو پوری جدید تاریخ میں روایتی ریاستی قوتوں (اسٹیٹ فورسز) کے خلاف کارگر ثابت ہوئی ہے۔ اس لڑائی کے لیے ایران کی حکمت عملی طویل کھیل کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ حزب اللہ اور حماس جیسی غیر روایتی گوریلا قوتوں پر انحصار کرتے ہوئے ایران بڑے پیمانے پر لڑائی میں براہ راست ملوث ہوئے بغیر جذبات کی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ اس حکمت عملی سے جسے کئی عشروں سے آزمایا جاتا رہا ہے، طویل جنگ میں اسرائیل کی کمزوریوں کا فائدہ مل سکتا ہے۔ جیسا کہ ویتنام یا افغانستان میں دیکھا گیا ہے، روایتی فوجیں – اعلیٰ ٹیکنالوجی اور فائر پاور کے باوجود – اکثر قابض ریاست کو درپیش سیاسی اور اقتصادی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہوتی ہیں۔ دوسری جانب گوریلا افواج بھاری نقصانات کو جذب کرسکتی ہیں اور لڑائی جاری رکھ سکتی ہیں، اپنی مزاحمت کو ہوا دینے کے لیے عوامی حمایت کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
اسرائیل کے لیے آگے کا راستہ روز بروز غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کے ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسرائیل کو نہ صرف فوری فوجی خطرات کا سامنا کرنا ہوگا بلکہ اس کے مخالفین کی مزاحمت کو ہوا دینے والے قوم پرستانہ عزائم کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔ ان بنیادی مشکلات کو دور کرنے میں ناکامی نے اسرائیل کو ایک طویل اور مہنگے تنازع میں پھنسا دیا ہے – جہاں صرف فوجی طاقت ہی فیصلہ کن یا دیرپا امن قائم نہیں کرسکتی۔ طویل مدتی اسٹرٹیجک کامیابی اور دیرپا سلامتی حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کو فوجی طاقت سے ہٹ کر متبادل نظریہ پر غور کرنا ہوگا۔ غزہ کے خلاف جنگ کے خاتمہ سے اسرائیل وسیع تر امن کی راہ کھول سکتا ہے۔ اس سے فلسطینیوں کے ساتھ ماضی کی تجاویز پر مبنی ایک ایسی متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دو ریاستی حل پر بات چیت کرنے کی راہ ہموار ہوگی، جس کی راجدھانی مشرقی یروشلم ہوگی۔ اس طرح کا معاہدہ نہ صرف فلسطینیوں کی امنگوں کو پورا کرے گا بلکہ وسیع تر عرب دنیا سے اسرائیل کو شناخت بھی مل جائے گی اور یہ بنیادی طور پر علاقائی منظر نامہ کو بدل کر رکھ دے گی۔
بہرحال نظریہ میں تبدیلی لانے کی شدید ضرورت ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کی اخلاقی، معاشی، فوجی اور تزویراتی ہر طرح کی حمایت کرنے والے مغربی ملکوں کے رویے میں بھی انقلابی تبدیلی ضروری ہے، تبھی اس مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔ ایک فرانسیسی دانشور کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل لبنان پر حملہ نہیں کر رہا، اسے آزاد کر رہا ہے۔‘ وہ اسرائیل کے پھیلتے ہوئے فوجی حملے پر خوشی منانے میں تنہا نہیں ہیں۔ اس طرح کے بہت سے لوگوں کے لیے اسرائیل صرف ’اپنے دفاع‘ کے لیے نہیں بلکہ صدر آئزک ہرزوگ کے الفاظ میں ’مغربی تہذیب کو بچانے کے لیے، مغربی تہذیب کی اقدار کو بچانے کے لیے‘ یہ جنگ لڑ رہا ہے۔ اور غزہ، اس کے اسپتالوں اور یونیورسٹیوں کی تباہی، اور 40 ہزار لوگوں کے قتل کا کیا؟ اور لبنان میں ایک عشرہ میں 2000 افراد کی ہلاکت کا کیا؟ اور اس کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ بے گھر ہو گیا، اس کا کیا؟ تہذیب کو بچانے کے نام پر اتنا بڑا نقصان! درحقیقت جنگوں کو وسعت دینے اور لبنان کو ایک اور غزہ میں تبدیل کرنے کی دھمکی دینے میں نیتن یاہو کا مقصد کسی بھی چیز یا کسی کو ’آزاد‘ کرنا نہیں بلکہ اندرونی اور بیرونی طور پر کنٹرول برقرار رکھنا ہے۔ یہودی ریاست کے حامیوں کے لیے یہ خاص طور پر ایک ’اخلاقی قوم‘ ہے، جو ’بربریت‘ کے خلاف تہذیب کے دفاع کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کا نقطہ نظر غزہ کی تباہی اور لبنان پر حملے کو مغربی اقدار اور ’تہذیب‘ کے ضروری دفاع کے طور پر دیکھنے کا ہے۔ اگر غزہ کی تباہی اور لبنان میں بربریت کو ایک زیادہ مہذب دنیا کی طرف ضروری قدم قرار دیا جا سکتا ہے تو ہمیں اس بات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ ’تہذیب‘ سے ہماری مراد کیا ہے۔
[email protected]