اقوام متحدہ کی امن فوج پر اسرائیلی جارحیت

0

صہیونی ریاست جبرو تشدد کے تمام حدود کو عبور کررہی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اس کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی امن فوج کو بھی نہیں بخش رہی ہے۔ لگاتار چار دنوں سے اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فورس پر حملے کررہی ہے اور دیدہ دلیری دیکھئے کہ نیتن یاہو براہ راست نشریہ میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گویترس کو دھمکی آمیز دانداز میں لبنان سے امن فورس کو واپس بلانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ لبنان میں 18سال کی خانہ جنگی، غیر ملکی مداخلت اوراسرائیلی جارحیت کو ختم کرنے کے بعد اقوام متحدہ نے 1989میں طائف سمجھوتے کے نفاذ کے بعد اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر ایک امن فورس تعینات کی جو دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت کی فائربندی کی نگرانی کرنے پر مامور ہے فوج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد کے بعد لبنان میں تعینات کی گئی تھی اور اس فوج کا بنیادی کام فائر بندی کے خط کو جسے بلیو لائن کہتے ہیں ، کی نگرانی کررہی ہے۔ اس نگرانی کا مقصد لبنان کو اسرائیلی جارحیت سے باز رکھنا ہے یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان زبردست تصادم ہیں اور سرحد کو لے کر دونوں ملک ہنوز حالات جنگ میں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع طے نہیں ہوا ہے اور صرف ایک عارضی فائر بندی کی گئی ہے جس کی نگرانی اقوام متحدہ کی یہ عارضی امن فورس کررہی ہے۔ بنیادی طور پر لبنان اور اسرائیل حالت جنگ میں ہیں۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک طویل عرصے سے تصادم چلا آرہاہے جس کے مظاہرے کے دوران لبنان کی خانہ جنگی بھی دیکھے گئے تھے اور اس کے بعد کئی مرتبہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ اور بلا واسطہ جنگیں چھڑ چکی ہیں۔
2006میں جب دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں کی رہائی کو لے کر سمجھوتہ ہوا تھا تو اسرائیل نے حملہ کردیا تھا اور جنوبی لبنان کے علاقے جس پر حزب اللہ کا فوج کا قبضہ ہے، حملہ کردیا تھا۔
13ماہ تک چلی اس جنگ میں اسرائیل کو زبردست جان مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر حزب اللہ کیونکہ جنوبی لبنان کے کوہستانی علاقوں، یہاں کی خفیہ راہداریوں ، پہاڑی گفائوںسے اچھی طرح واقف ہے اس سے اسرائیلی فوج کو پسپا کرنے میں آسانی ہوئی تھی اور اسرائیل کو اپنے قبضے کے کئی علاقوں کو خالی کرنا پڑاتھا جس میں وادی بقا بھی شامل ہے۔ یہ علاقہ کافی سرسبز شاداب ہے اور یہاں کے پر خطر راستے کسی غیر ملکی فوج ادارے کو اپنا عمل دخل بنانے میں کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ اس مرتبہ بھی حزب اللہ اسرائیل کی زمینی فوج کو مسلسل دھول چٹا رہا ہے۔
حزب اللہ جارح فوج کے کئی حملوں کو ناکام بنا چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں حزب اللہ کے بڑے اسلحہ کے ذخائر ہیں جن کو اس نے اسرائیل کے خلاف مسلسل استعمال کیاہے اوریہیں سے اسرائیل کے شمالی علاقوں میں حملے کررہا ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں موجوداسرائیلی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اب بھی بڑی تعداد میں ان علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کو ہٹا کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے اس سے اسرائیل کے عوام میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف کافی ناراضگی کے ساتھ ساتھ بے گھر ہونے والے اسرائیلیوں کی باز آبادکاری کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
لہٰذا اسرائیل دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے جنوبی لبنان کے پورے علاقے کو اس حد تک کنٹرول کرنا اور اپنا استبداد نافذ کرنا چاہتا ہے کہ آئندہ چل کر شمالی اسرائیل کے مکینوں کو منتقل کرنے کی مشقت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ جیسا کہ ان صفحات میں کئی دفعہ بتایاگیا ہے کہ اس وقت لبنان میں سیاسی اقتصادی عدم استحکام ہے ۔
لبنان کی خود کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے جو کچھ بھی فوج ہے وہ قطر کے وظائف اور مالی امداد پر موقوف ہے۔ ایسے حالات میں قطر سمیت وہ تمام ممالک جو کہ لبنان کے معاملات میں عمل دخل اور دلچسپی رکھتے ہیں نہیں چاہتے کہ اسرائیل کوئی ایسے جارحانہ اقدام کرے جن کی وجہ سے اہل لبنان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اس میں سب سے اہم نام فرانس کا ہے۔ فرانس سے لبنان کی سابق سامراجی طاقت ہے ۔
فرانس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے اس خطے کو آزاد کیا تھا۔ لبنان کے کئی باثر سیاسی اور فوجی کمانڈر اور حکمراں مسلسل فرانس میں رہے ہیں جن میں قابل ذکر سنی عرب سیاسی خاندان مرحوم وزیراعظم رفیق حریری اور سابق صدر جنرل (سبکدوش) آعون شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی عرب ممالک مسلسل لبنان کو منتشر ہونے سے بچانے کی کوشش میں سرکردہ ہیں۔
18سال تک چلی لبنان کی خانہ جنگی کو ختم کرنے میں امریکہ اور سعودی عرب نے غیر معمولی خدمات انجام دی تھی اور اس وقت ایک فارمولہ وضع کیا گیا تھا جس کے تحت لبنان میں ابھی تک سیاسی اور اقتصادی نظام قائم تھا۔ بہرکیف اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو چند مغربی ممالک کی شہہ پر نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ کی امن فوج پر اعلانیہ حملے کررہے ہیں بلکہ اسرائیل نے گزشتہ 24گھنٹے میں ان اسپتالوں کے ارد گرد بم برسا کر مہاجرین کے خیمے کو نذرآتش کیا ہے جن میں کئی معصوم لوگ جو غزہ کے مختلف علاقوں سے بے گھر ہونے کے بعد پناہ لیے ہوئے ہیں،مارے گئے ہیں۔
بعض مہاجرین کی لاشیں جلی ہوئی حالت میں برآمد ہوئی ہیں۔ کچھ بچے اپنے ماں با پ جلتے ہوئے حالت میں دیکھ کر آہ بقا کرتے دیکھے گئے ہیں لیکن مغربی ممالک جو کہ اسرائیل پر ہتھیاروں کے سپلائی کے لیے پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی خاص طور پراسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک کا برداشت کا پیمانہ کب چھلکتا ہے اور یہ کب اسرائیل کی بربریت کو لگام لگاتے ہیں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS