پروفیسر عتیق احمدفاروقی
جموںوکشمیر نے کم اورہریانہ کے نتیجوں نے سیاسی ماہرین کو زیادہ چونکایاہے۔ تمام ایگزٹ پول کے نتیجے خصوصاً ہریانہ میں بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں اوربی جے پی نے یہاں لگاتار تیسری بار فتح درج کرکے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیاہے۔ بیشک بی جے پی کی یہ جیت اس کاحوصلہ بڑھائی گی۔وہاں سال 2014سے لگاتار بی جے پی ہی اقتدار پر قابض ہے۔ گزشتہ انتخاب میں اُسے اسمبلی میں اکثریت نہیں حاصل ہوئی تھی، حکومت کی تشکیل کیلئے اتحادی محاذ بنانا پڑاتھا، پر اِس بار اُسے تنہا اپنے دم پراکثریت حاصل ہونا بہت معنی رکھتاہے۔ ابھی چار ماہ قبل ہی لوک سبھا انتخابات کے جونتائج آئے تھے اُس میں بی جے پی اورکانگریس کے کھاتے میں پانچ پانچ نشستیں آئی تھیں جس سے یہ اندازہ لگایاگیاتھا کہ ہریانہ میں لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایگزٹ پول نے بھی بدلاؤ کا ہی اندازہ لگایاتھا، پرہریانہ میں بی جے پی کے لیڈران کو پورا کریڈٹ ملناچاہیے۔ وہاں ای وی ایم میں کچھ گڑبڑیوں کی رپورٹ بھی آئی ہے جس کی وقت کے ساتھ جانچ ہوگی۔ لیکن یہ چیز پورے نتیجے کو متاثرنہیں کرسکتی۔ اگرایسا ہوتا تو کشمیر میں بھی بی جے پی فتحیاب ہوتی۔ ہریانہ کے بی جے پی لیڈران نے پارٹی میں ناراضگی اورشکایتوں کے باوجود اپنی حکومت بچالی۔ دوسری جانب کانگریس کو ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ، لیڈران کی ناراضگی ، شکایتوں کا انبار اور’انڈیا اتحاد ‘میں درار بھاری پڑا۔
دراصل تیسری بار عوامی فرمان حاصل کرنے گئے سیاسی جماعتوں اور لیڈران کو ہریانہ کے رائے دہندگان حاشیے پر ہی بھیجتے رہے۔ بھجن لال کی قیادت میں کانگریس کو رائے دہندگان نے 1987 میں پانچ سیٹوں پرسمیٹ دیاتھا، تو 2014 میں بھوپندر سنگھ ہُڈا کی قیادت میں کانگریس پانچ سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔ ماضی کے اس آئینہ میں دیکھنے پر ہریانہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی فتح کی اہمیت سمجھی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے ماضی میں حکومتیں عوامی توقعات پر کھرا نہ اترپانے اوراقتدار مخالف جذبات کے سبب ہی لگاتار تیسری فتح حاصل کرنے میں ناکام رہی ہوںگی۔ اس ودھان سبھا چناؤ میں بھی اقتدا رمخالف جذبات پر بحث کم نہیں تھی۔ سیاسی تجزیہ کاروں سے لے کر تجزیہ کار تک بتارہے تھے کہ ہریانہ میں اقتدار مخالف جذبہ اتنا طاقت ور ہے کہ عوام خود بی جے پی کے خلاف چناؤ لڑرہی ہے اورتشتری میں رکھ کر کانگریس کو اقتدار سونپنے کوتیار ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال سے لے کر موجودہ وزیراعلیٰ نائب سنگھ سینی تک موافق عوامی جذبات کا جوابی دعویٰ کرتے رہے، پر اسے انتخابی سیاسی بیان بازی سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ دس سال کی حکمرانی کے بعد اقتدار مخالف جذبہ غیر فطری بھی نہیں ہے، لیکن اسے منصوبہ بند انتخابی حکمت عملی اورانتظام سے غیر مؤثر کیاجاسکتاہے، یہ بی جے پی نے ثابت کردیاہے۔ اسی سال مارچ میں بی جے پی نے جب تقریباً ساڑھے نوسال پرانے وزیراعلیٰ منوہر لال کی جگہ نائب سنگھ سینی کو ہریانہ کی کمان سونپی توزیادہ تر لوگوں نے اسے اقتدارمخالف جذبات کو ٹھنڈاکرنے کی قواعد کے طور پر دیکھا۔ ممکن ہے یہ نظریہ بھی اقتدار کی تبدیلی کی جڑمیں رہا ہو۔ مگروہ منوہر لال کے وزیراعظم مودی کے دل سے اترجانے کا اشارہ تو ہرگز نہیں تھا، کیونکہ ان ہی کی پسند کی شکل میں نائب سنگھ سینی کو وزیراعلیٰ بنایاگیا اورپھر خود انہیں کرنال سے لوک سبھا چناؤ لڑاکر مرکزی حکومت میں کابینہ وزیربنایا۔ اپریل -جون میںہوئے لوک سبھا انتخابات میں ہریانہ سے بی جے پی کی نشستیں دس سے گھٹ کر پانچ رہ جانا اقتدار مخالف ہوا کا دوسرا اشارہ تھا۔ اسی کے بعد زیادہ تر سیاسی مبصرین نے مان لیاکہ اکتوبر کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی رخصتی اورکانگریس کی اقتدار میں واپسی طے ہے۔ لیکن جمہوریت میں آخری فیصلہ رائے دہندگان ہی کرتے ہیں اوران کا فیصلہ آٹھ اکتوبر کی ووٹوں کی گنتی سے اب سب کے سامنے ہے۔ اب جب کہ عوام کا فیصلہ آچکاہے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ہار ی ہوئی لگ رہی بازی بی جے پی کیسے جیت گئی اور جیتی ہوئی نظرآرہی بازی کانگریس کیوں ہارگئی؟ ۔
یہ پہیلی تب اوربھی مشکل بن جاتی ہے جب کانگریس کے پاس سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا ایک بیحد مقبول لیڈر موجودتھا اورکسان ، جوان اورپہلوان ، جس کی ناراضگی ہرطرف زیربحث تھی ، کہ مدعے بھی تھے۔ دس سال کی حکمرانی کے خلاف فطری اقتدار مخالف جذبہ اور کسان تحریک ، اگنی ویر اسکیم اور خواتین پہلوانوں نے دھرنا -مظاہرے سے اپنے مواقف بنے ماحول میں بھی جیتی ہوئی لگ رہی بازی ہار جانے کے صدمے کو عبور کرنا کانگریس کیلئے مشکل ہوگا۔ اگرچہ راہل گاندھی کی جرأت مندانہ اوربے خوف قیادت اورمستقل مزاجی اس میں کافی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہے جب الیکشن تجزیہ اورایگزٹ پول اوندھے منھ گرے ہیں۔ ایسے چناوی پنڈتوں کو اپنے طریقۂ کار پر سنجیدہ احتساب کرنا چاہیے، جو رائے دہندگان کا دل پڑھنے کے بجائے ہوا کا رخ بھانپ کر نتیجہ نکال لیتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ چار ماہ قبل ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اپنی دس میں سے پانچ سیٹیں ہار گئی تھی، پر ووٹ فیصد اوراسمبلی حلقوں میں بڑھت کے معاملے میں وہ پھربھی کانگریس سے آگے رہی۔ دراصل لوک سبھا انتخابات میں صفر سے پانچ پر پہنچ کر کانگریس کا اعتماد ضرورت سے زیادہ بڑھ گیا جو اس کیلئے نقصاندہ ثابت ہوا۔ داخلی تنازعہ دونوں ہی پارٹیوں میں تھا، بی جے پی نے خوبصورتی سے اس مسئلے کا سامنا کیا اوراس کا حل تلاش کیا۔ جبکہ کانگریس دھوکے میں رہی۔ بی جے پی کی فتح کی ایک سب سے بڑی وجہ آر ایس ایس کیڈر کا تشہیر میں پوری طرح جٹ جانا ہے۔ دوسرے بی جے پی نے اس انتخاب میں پانی کا طرح پیسہ بہایاجبکہ کانگریس کے وسائل محدود تھے۔
جموںوکشمیر اسمبلی انتخابات کے نتیجوںسے یہ صاف ہو گیا ہے کہ رائے دہندگان نے وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس اورجموں میں بی جے پی کواقتدار سونپاہے۔ اسی طرح کا نتیجہ 2014کے ودھان سبھاانتخابات میں وادی کشمیر میں پی ڈی پی کے اورجموں میں بی جے پی کے حق میں آیاتھا لیکن بعد میں پی ڈی پی -بی جے پی نے اتحاد کرکے حکومت بنائی اور گربھی گئی۔ موجودہ نتائج کی روشنی میں بی جے پی کیلئے کشمیر کی مشہور پارٹیوں سے ملکر حکومت بناناممکن نہیں تھا۔ کیونکہ مہاراشٹرا، بہار، جھارکھنڈمیں ہونے والے انتخابات میں اس سے بی جے پی کو نقصان ہونے کاخطرہ تھا۔ دراصل نیشنل کانفرنس میں اپنے منشورمیں دفعہ 370 اور 35 اے کی دوبارہ بحالی کا وعدہ کیاہے اورجموں -کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ مرکزسے دلوانے کا بھی وعدہ کیاہے۔ بی جے پی کو امید تھی کہ پارٹی کو گجر بکروال اورپہاڑیوں کے ووٹ ملیں گے پرایسا نہیں ہوا۔ اگرپارٹی کو ان گروپس کے ووٹ مل جاتے تو انہیں نونشستیں مزید مل جاتیں اوراسے حکومت کی تشکیل میں آسانی ہوجاتی لیکن بی جے پی کے زیادہ تر امیدوار ہارگئے۔ بی جے پی کو جموں میں امید سے بہت کم نشستیں حاصل ہوئیں۔ مانا جارہاہے کہ جموں میں بی جے پی کو زیادہ نشستیں نہ ملنے کا سبب بیروزگاری ، جموں کے سارے کاروبار کا بند ہوجانا اوراسمارٹ بجلی میٹرلگاناہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہناہے کہ جموں وکشمیر کی بی جے پی کی سیٹیں نہ بڑھنے کا سبب پارٹی لیڈران کا عوام سے رابطہ کا ختم ہونا اورصوبہ میں نوکرشاہی کی منمانی سے لوگوں کا تنگ آجانا ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے جموں وکشمیر میں مرکز کے ذریعے حکومت چلائی جارہی ہے اوربی جے پی کے لیڈر عوام کی زمینی آواز حکومت تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
مجموعی طور پر ہریانہ اورکشمیر میں انتخابات کے جونتائج آئے ہیں اس سے بی جے پی کا حوصلہ بلند ہوگا اورمستقبل کے انتخابات میں اس کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے۔ کانگریس کو چاہیے کہ اس شکست سے سبق لے کر ’انڈیااتحاد‘ کو ایک بارپھر مضبوط کرے اوراُن ریاستوں میں جہاں کانگریس یااس کے اتحادیوں کی حکومت ہے وہاں فلاحی کاموں کی عوام کے بیچ جاکر تشہیر کریں اوربی جے پی کی تقسیم کرنے والی سیاست کو عوام کے سامنے عیاں کرے۔
[email protected]
دو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ : پپروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS