پروفیسر اسلم جمشید پوری
ہندوستان کو نئے دور یعنی سائنسی عہد میں لے جانے کا سہرا جن لوگوں کے سر ہے،ان میں ٹاٹا گروپ کے سابق سی ایم ڈی رتن این ٹاٹا کا شمار صفِ اوّل میں ہوتا ہے۔رتن ٹا ٹا نے ہندوستان کواپنا ملک مانا اور اس کے بہت سارے مسائل کو نہ صرف سمجھا بلکہ ان کا تدارک بھی کیا۔ملک میں پہلی بار ٹاٹا گروپ نے مزدوروں کے حقوق کی نہ صرف بات کی بلکہ ان کو عملی طور پر حل کرکے دکھایا۔آٹھ گھنٹے روزانہ کام،بونس،میڈیکل،تعلیم،گھر وغیرہ کا انتظام کیا۔ یہی نہیں 60 سال میں ریٹائرمنٹ، ریٹائرمنٹ کے وقت گریجوئٹی،فنڈ،دیگر پیمنٹ اور ایک بچے کی ملازمت کو یقینی بنایا۔آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آئے تو جمشید پور جسے ٹاٹا نگر بھی کہتے ہیں،چلیں اور اپنی آنکھوں سے کمپنی میں کام کرنے والوں کو دی جانے والی سہولیات اور شہر کا انتظام دیکھیں۔ چوڑی چوڑی سایہ دار سڑکیں، ہوا دار اچھے فلیٹس، ہر وقت بجلی اور صاف پانی کا انتظام، بڑے بڑے اسپتال، نرسنگ ہومس، پرائمری سے کالج تک کی تعلیم کا بغیر تفریق مذہب و ملت انصرام،خوبصورت پار ک،زو،مصنوعی اور قدرتی جھلیں اور ڈیم، ان سب کے ساتھ انسانیت کی خدمت نے سونے پہ سہاگا والا کام کیا ہے۔ رتن ٹاٹا نے اس وراثت کو کافی دن سے نہ صرف برقرا رکھا بلکہ اس میں نئی نئی بلندیاں جوڑیں اور اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
ٹاٹا گروپ ملک کا واحد گروپ ہے جو صنعت کار تو ہے، مگر جس کے اندر حبّ الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ دوسری بڑی بات یہ کہ اس گروپ میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ اس کے لیے سب مساوی ہیں کیا مسلمان،کیا ہندو،کیا سکھ، کیاعیسائی،ان کے لیے بس ہندوستانی ہونا زیادہ اہم ہے۔ ہندوستان کے رہنے والے غریب لوگوںکے لیے ٹاٹا گروپ نے بہت کچھ کیا۔ٹاٹا گروپ کاٹرسٹ جس نے رتن ٹاٹا کی رہنمائی میں غریبوں کے لیے،عالمی سطح کی سہولیات سے مزین آسام، جھارکھنڈ، آندھراپردیش،کرناٹک،مہاراشٹر میں کینسر اسپتال کھولے، جہاں غریبوں کا بہت کم پیسوں میں علاج ہوتا ہے۔جمشید پور میں موجود ٹی ایم ایچ بھی غریبوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ٹی ایم ایچ میں عالمی سطح کی بہت سی سہولیات میسر ہیں، جن سے دن رات غریب مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ رتن ٹاٹا نے ہندوستان میں کھیلوں کو کافی بڑھاوا دیا۔انہوں نے تقریباً ہر کھیل میں محنت کی اور ایک مضبوط ٹیم تیار کی۔فٹ بال میں ٹاٹا گروپ نے نئے بچوں کو ٹرینڈ کرکے بہترین فٹ بال ٹیم تیار کی۔ والی بال،ہینڈ بال،باسکٹ بال، دوڑ، شطرنج، جمنازیم اور دوسرے کھیلوں میں ٹاٹا نے نئی روح پھونکنے کا کام کیا۔ کرکٹ کو سہارا دینے اور ہندوستان کی حوصلہ افزائی کے لیے لوگو اسپانسر کیا۔ کھیلوں کے کئی بڑے مقابلے منعقد کرائے۔ خاص کر جھارکھنڈ کے قبائلی لڑکے لڑکیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی اسپورٹ میں ہر ممکن مدد کی۔
غریبوں کی مدد کے لیے ٹاٹا گروپ مشہور ہے۔اس نے ابتدا سے ہی غریبوں کی مدد کو اپنا شیوہ بنایا،جو آج تک برقرار ہے۔ٹا ٹا چیریٹی کرنے کے لیے معروف ہے،ہر سال اس گروپ کے ذریعہ 4.102 بلین ڈالر کا خرچ صرف چیریٹی پر ہوتا ہے۔ملک میں بہت سے این جی اوز، اسپتال،اورفنیج،بزرگوں کے گھر، غریبوں کے علاج پر ٹاٹا گروپ کافی خرچ کرتا ہے۔اس گروپ کے کئی ٹرسٹ ہیں جو دن رات غریبوں، معذروں اور مجبوروں کی مدد کرتے ہیں۔بائی ہیرا بائی جے این ٹاٹا نو ساری چیری ٹیبل انسٹی ٹیوشن،ٹا ٹا ایجوکیشن اینڈ دیولپمنٹ ٹرسٹ، سارواجنک سیوا ٹرسٹ، نواجبائی رتن ٹاٹا ٹرسٹ،سر رتن ٹاٹا ٹرسٹ وغیرہ دن رات عوام کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔یہی نہیں ٹاٹا گروپ میں ٹاٹا اسٹیل فائونڈیشن اور ٹاٹا اربن سروسیز عوامی خد مات،ادب اور ساہتیہ کا فروغ،آپسی محبت اور ہم آہنگی میں مصروف رہتے ہیں۔
2006 میں ممبئی میںمیاں بیوی کو اسکوٹر پر بھیگتا دیکھ کر رتن ٹاٹا نے دنیا کی سب سے چھوٹی کار بنانے کی سوچی۔ ٹاٹا گروپ خاص کر رتن ٹاٹا کا ایک خواب تھا کہ غریبوں میں جو لوگ کچھ اوپر ہیں، انہیں بھی کار میں بیٹھنا چاہیے۔پہلے اس پروجیکٹ کے لیے بنگال میں ایک ہزار ایکڑ زمین لی،جس پر سیاست ہوگئی۔ٹاٹا نے پھر گجرات کا رخ کیا۔ٹاٹا کا یہ خواب پورا ہوا۔2008 کے نئی دہلی میں منعقد ہونے والے آٹو ایکسپو میلے میں نینو دکھائی گئی اور 2009 سے ایک لاکھ روپے کی ایکس شو روم قیمت پر کار دستیاب تھی۔یہ ہندوستان کی سب سے چھوٹی اور سب سے کم قیمت والی کار تھی۔اس سے بے شمار لوگوں نے اپنی زندگی میں کار کا مزہ لیا۔یہ کار عالمی بازار میں بھی بہت مشہور ہوئی اور کئی ملکوںمیں اس کار کی فروخت ہوئی۔ ٹاٹا نے ہمیشہ غریبوں اور کم آمدنی والے لوگوں کا خیال رکھا۔
رتن ٹاٹا ہمیشہ کہا کرتے تھے،’’ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے نشیب و فراز بہت اہم ہیں کیوں کہ ای سی جی میں سیدھی لکیر کے معنی موت کے ہوتے ہیں۔‘‘یہ جملہ وہ اکثر اپنے خطاب میں کہا کر تے اور اس فلسفے کو ان کی زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔وہ بہت چھوٹے کام(ٹرینی) سے ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کے بڑے عہدے تک پہنچے۔یہ ان کی سخت محنت اور مسلسل کام کرنے کی عادت ہی تھی۔اپنی چیئرمین شپ میں انہوں نے ٹاٹا گروپ کو کافی آگے لے جانے کا کام کیا۔وہ جب بھی جمشید پور آتے تو اپنے پرانے ساتھیوں سے ملنا نہیں بھولتے۔ان کے دل میں غریبوں اور پسماندہ لوگوں سے بہت ہمدردی تھی۔وہ ہر وقت ایسے لوگوں کی مدد کے لیے تیار رہتے۔
رتن ٹاٹا نے دنیا کی بہت سی بڑی کمپنیز کو ٹیک اوور کیا اور برے وقت میں ان کی مدد کی۔خاص کرانگلینڈ کی ’کورس ‘ کمپنی کو 2007 میں اپنا بنایا جبکہ کئی بڑے ممالک بھی اس کو لینے کی قطار میں تھے۔رتن ٹاٹا نے جب اس کمپنی کو لیا تب یہ بڑے گھاٹے کا سودا تھا، مگر رتن صاحب نے ہمت نہیں ہاری۔آج ٹاٹا دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل کمپنی ہے۔یہ سب رتن جی کی دوراندیشی ہے۔ٹاٹا گروپ نے ٹیٹلی چائے کمپنی، دیوو کمر شیل وہیکلس، ناٹ اسٹیل، سنگا پور، جیگوارلینڈ روور کو ٹیک اوور کیا اور پوری دنیا میں دھوم مچادی۔
ہندوستان کی گھریلو اشیاء کو ٹاٹا نے بنا نا شروع کیا۔ٹاٹا نمک کا جواب نہیں۔ٹائٹن واچ کی کوئی نظیر نہیں۔تنشک کے زیور کی عورتیں دیوانی ہیں۔ٹاٹا کی چائے کی چسکی کمال کی ہے۔موٹرس میں ٹاٹا کی کاریں،ٹاٹا ہاتھی،ٹرک،بس کا سکہ دنیا بھر میں چلتا ہے۔کیا کیا چیز گنوائی جائے۔ٹا ٹا نے پوری دنیا میں ہندوستان کا سر بلند کیا ہے۔وہ شخص جس نے اپنی پوری زندگی ٹاٹا گروپ کو آگے لے جانے اور غریبوں کے لیے وقف کر دی تھی،جو ہندوستان سے دل سے سچی محبت کرتا تھا،ایسے شخص کو اب تک ہندوستان نے اپنا سب سے بڑا اعزاز ’’ بھارت رتن ‘‘نہیں دیا۔افسوس صد افسوس! ہم ان کی موت کے منتظر تھے۔آج ملک کے کئی حصوں سے رتن ٹاٹا کو ’بھارت رتن ‘ دینے کی مانگ اٹھ رہی ہے۔دراصل رتن ٹاٹا ہمارے،ہم سب کے اور پورے ہندوستان کے اصلی ہیرو ہیں۔وہ ہندوستان کے ’رتن ‘تھے۔کوئی انہیں اعزاز دے یا نہیں۔
وہ28 دسمبر1937 میں ممبئی میں پیدا ہوئے۔ان کا پورا نام رتن نول ٹاٹا تھا۔ان کے والد کانام نول ٹاٹا اور ان کی والدہ سونی کمیساریت تھیں۔انہوں نے کورنیل یونیورسٹی سے بی آرک کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے1962 میں ٹاٹا گروپ جوائن کیا۔انہوں نے 1991سے2012 تک اور 2016 سے 2017 تک ٹاٹا گروپ کی کمان سنبھالی۔نول ٹاٹا کو رتن جی ٹاٹا نے گود لیا تھا،جو کہ ٹاٹا گروپ کی داغ بیل ڈالنے والے جمشید جی ٹاٹا کے بیٹے تھے۔انہوں نے جے آر ڈی ٹاٹا کے بعد اس گروپ کی کمان سبھالی۔ان کے زمانے میں اس گروپ نے بہت ترقی کی اور ہندوستان کا نام پوری دنیا میں اونچا کیا۔انہوں نے شادی نہیں کی۔انہیں کئی یادگار اعزازت سے نوازا گیا۔ 2000 میں پدم بھوشن،2006 میں مہاراشٹر بھوشن، 2008 پدم ویبھوشن، 2014 میںآنریری نائٹ گرانڈ،2021 میں آسام ویبھو،2023 میں آرڈر آف آسٹریلیاسے نوازا گیا۔
ہندوستان کا یہ سورج 9؍اکتوبر کو ہم سب سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا اور نجانے کتنی زندگیوں میں اندھیرا کر گیا۔اپنی پوری زندگی میں انہوں نے 40 سے زائد اسٹارٹ اپ میں اپنی ذاتی رقم،اپنی کمپنی آر این ٹی کے ذریعہ انویسٹ کیا۔ایسے شخص کا جانا صرف ٹاٹا گروپ کا نقصان نہیں ہے بلکہ یہ پورے ہندوستان کا بڑا نقصان ہے۔
[email protected]