وسیم احمد
اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلوبلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اوروہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(البقرہ)صاحب معارف القران حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ آیت بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں:’’اصل برّ اور ثواب اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہے‘‘ (معارف القرآن )
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف بناکر، اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یقینا جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آل عمران: 92) جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پائوگے۔ اور فرمایا اطاعت اور فرمانبرداری میں سے یہ بھی ہے کہ تم یتیموں پر غریبوں پر لاچاروں اور محتاجوں پر اپنے مال میں سے کچھ خرچ کرو۔
فرمایا: اور مال سے اپنی محبت کے باوجود خرچ کرے ،اس کا معنی یہ ہے کہ انسان تندرست ہو ، اس کو پیسوں کی ضرورت بھی ہو ، تاکہ وہ اپنے مستقبل کے لمبے لمبے منصوبوں کو پورا کرے اور اسے فقر کا خدشہ بھی لاحق ہو ،پھر بھی وہ اللہ کی راہ میں، رشتہ داروں، یتیموں ، مسکینوں، مسافروں اور سائلین وغیرہ پر خرچ کرے۔ امام ترمذی روایت کرتے ہیں :حضرت فاطمہ بنت قیس بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زکوۃ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے ‘ پھر آپ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا (جامع ترمذی )زکوٰۃ ، قربانی، عشر اور صدقہ فطر صدقات واجبہ ہیں، باقی صدقات نفل اور مستحب ہیں۔ صدقات واجبہ ماں ماپ اولاد اور شوہریا بیوی کے علاوہ ان لوگوں کو دیئے جائیں گے جو غیر سادات اور فقراء ہوں۔الغرض یہ کہ مال خرچ کرنا اس کا صدقہ کرنا یتیموں کی اور غریبوں کی کفالت کرنا ناصرف جائز ہے بلکہ عند اللہ محبوب مستحسن بھی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بے شمار قرآن آیات میں اس کی فضیلت اور اہمیت بتلائی ہے یہ حقیقت ہے یہ قرآن کریم میں کہیں پر بھی وقف کا تذکرہ صراحتاً نہیں آیا لیکن قران کریم میں اس کے لئے صدقہ، خیر، نیکی، قرض الحسنہ، تعاون، عمل صالح، باقیات الصالحات، ایثار،انفاق اور احسان جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں۔ البتہ مذکورہ تمام عناوین ایک لحاظ سے وقف کہے جا سکتے ہیں کیونکہ وقف صدقہ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی نیکی، ایثار، تعاون، خیر، انفاق اورباقیات الصالحات بھی ہے۔ قرآن مجید میں وقف کے بدلے میں بے شمار ثواب کے بیان کے علاوہ اس کے انفرادی اور اجتماعی آثار بھی بیان ہوئے ہیں۔
1-چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔مفہوم:’’جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔‘‘2- مفہوم:(البقرہ)’’اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم سب جہاں بھی رہوگے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا کہ وہ ہر شے پر قادر ہے‘‘۔3- مفہوم:(البقرہ)’’پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدین قرابت داروں، ایتام، مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور تم میں جو بھی کارخیر کرے گا خدا اسے خوب جانتا ہے۔4 مفہوم: (المعارج)’’ اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے ، مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیںاور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔قران کریم کی جتنی آیتیں اوپر ذکر کی گئی ہیں یہ اس بات کو بتانے کے لیے کافی ہیں کہ صدقہ کی کتنی اہمیت عند اللہ ہے اور اسی صدقہ جاریہ اور صدقہ دائمہ کی ایک قسم وقف ہے۔ تو وقف کا اگرچہ صراحتاً تذکرہ قرآن میں نہیں ہے لیکن ضمنی طور پر وقف کا ثبوت اس طور پر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ثابت ہے۔
وقف قرآن کی روشنی میں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS