ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
گاندھی جی کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری اور انہوں نے اپنے قیمتی 28 سال معاشرے کی مختلف برائیوں کے خلاف عملی اقدامات میں صرف کیے۔ہندوستان میں چھوا چھوت ایک خطرناک بیماری کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ ہندو لوگ دلتوں اور ہریجنوں کو کمتر اور حقیر سمجھتے تھے، انہیں ہمیشہ ایک نیچ حیثیت میں دیکھا جاتا تھا۔ ان کے استعمال کے برتن اور جن جگہوں پر ان کے قدم پڑتے، وہ جگہیں آلودہ اور ناپاک تصور کی جاتی تھیں۔ مندروں میں ان کا داخلہ سختی سے ممنوع تھا۔سماج میں یہ رواج تھا کہ ان برتنوں، مقامات، اور مندروں کو گنگا جل سے دھو کر پاک کیا جاتا۔ گاندھی جی نے اس ظلم و ستم کے خلاف سخت آواز اٹھائی اور ایک تحریک شروع کی جس نے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی بھی تفریق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی کوششوں نے سماجی انصاف کے حصول کی راہ ہموار کی اور لوگوں کے دلوں میں محبت اور بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیا۔
گاندھی جی تشدد کی ہر شکل کے خلاف تھے۔ وہ آزادی کی اس مستقل، مسلسل اور طویل لڑائی کو بھی عدم تشدد کے اصول کے تحت لڑنا چاہتے تھیاور انہوں نے یہ نظریہ عملی طور پر بھی ثابت کیا۔ انہوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں عدم تشدد کی طاقت سے انگریزوں کے خلاف مؤثر تحریکیں چلائیں۔ ان کی ہر تحریک میں ایک بڑا ہجوم شامل ہوتا، جسے انگریزوں کے لیے سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔
گاندھی جی نے آزادی کی ہر لڑائی عدم تشدد کی بنیاد پر جیت کر دکھائی اور آخرکار 1947 میں ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا۔ لیکن بدقسمتی سیاس آزادی کے ساتھ ہی ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ گاندھی جی اس تقسیم کے سخت مخالف تھے اور اس کے خلاف بھوک ہڑتال بھی کی۔ مگر اس وقت کے کئی رہنما اس تقسیم کے حق میں تھے کیونکہ ان کی سیاست کا مستقبل تقسیم کی صورت میں ہی محفوظ نظر آتا تھا۔ ان کی نظریاتی جدوجہد اور اخلاقی سچائی کے باوجود، ملک کی تقسیم کے فیصلے نے ان کی آرزوئوں کو شدید متاثر کیا۔موہن داس گاندھی کے لیے عدم تشدد کا اصول محض جنگ میں لڑنے کا ایک نیا طریقہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کی زندگی کا ایک بنیادی اصول بن چکا تھا۔ جب ستمبر 1939 میں برطانیہ اور جرمنی کے درمیان جنگ کا اعلان ہوا تو ہندوستان بھی مجبوری میں اس جنگ میں شامل ہو گیا حالانکہ انگریزی حکومت نے اس سلسلے میں کسی بھی ہندوستانی وزیر یا سیاسی رہنما سے مشورہ نہیں کیا تھا۔ پھر بھی کانگریس کی ہمدردیاں برطانوی حکومت کے ساتھ تھیں۔
وائسرائے ’’لارڈ لنلتھ گون‘‘ نے گاندھی جی کو شِملا بلایا۔ گاندھی جی نے ان سے کہا کہ میری اخلاقی حمایت آپ کے ساتھ ہے کیونکہ میں انگلستان اور فرانس کا حامی ہوں مگر میں اخلاقی حمایت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس بار ان کا نقطہ نظر 1914کی جنگ سے مختلف تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا نظریہ واضح ہے’’ ہندوستان کو مخالف کے سامنے آنے کے لیے عدم تشدد کا راستہ اپنانا چاہیے‘‘۔ چناچہ گاندھی جی کا تو ستیہ گرہ کا نعرہ یہ تھا ’’ جنگ میں آدمی یا پیسے سے انگریزوں کی مددکرنا بالکل غلط ہے سب سے ٹھیک بات یہ ہے کہ ہر جنگ کا مقابلہ اہنسا کے ذریعے کیا جائے ‘‘، وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھیوں میں سے بہت کم لوگ ان کے اس طریقہ کار سے اتفاق کریں گے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ اپنے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کریں، لیکن اس میں انہیں کئی چیلنجز کا سامنا کنا پڑا۔
جب جاپان نے ہندوستان پر حملے کئے تو گاندھی جی نے جاپانیوں کے حملے یا ان کے بڑھائو کے اندیشے کے پیش نظر ’’میرا بہن‘‘ کو تار بھیج کر اڑیسہ جانے کو کہا کہ وہ و وہاں کے لوگوں کو عدم تشدد کے ذریعے مقابلے کی تعلیم دیں وہ وہاں گئیں اور کام کرنے لگیں بعد میں ایک خط میں گاندھی جی نے میرا بہن کو لکھا کہ وہ لوگوں کو ایسی تعلیم دیں کہ اگر جاپانی حملہ کریں تو ان کے ساتھ پوری طرح عدم تعاون کیا جائے۔ لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہ حملہ آوروں کے سامنے مرضی سے سر نہ جھکائیں‘‘۔ایک مرتبہ گاندھی جی سے معلوم کیا گیا کہ اگر کوئی حکومت پوری طرح سے عدم تشدد کی پابند ہو جائے تو کیا ہوگا ؟ اْن کا جواب تھا ’’ کوئی بھی پوری طرح عدم تشدد کا پابند نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی بھی حکومت ہو وہ عوام کی نمائندہ ہوتی ہے۔ میں ایک ایسے سماج کے امکان پر عقیدہ رکھتا ہوں جو زیادہ سے زیادہ عدم تشدد کا پابند ہو ایسے سماج کی نمائندگی کرنے والی حکومت کم سے کم طاقت کا استعمال کرے گی کوئی بھی حکومت اس کی اجازت نہیں دے سکتی کہ انتشار کا بول بالا رہے اس لیے اہنسا کی پابند حکومت میں بھی تھوڑی بہت پولیس کی ضرورت رہے گی‘‘۔
کراچی کے ایک جلسے کے دوران، غنڈوں کے ایک گروہ نے گاندھی جی پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں دبوچنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے پانچ لاکھ کے ایک بڑے جلسے میں کہا ’’ اپنی حفاظت کے لیے مجھے کسی باڈی گارڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ میرا سینہ کھلا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود مجھے کوئی مار نہیں سکتا۔ کیوں کہ میرا باڈی گارڈ قادر مطلق خدا ہے‘‘۔ اس بیان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ انسانی حیثیت سے بلند کوئی چیز ہیں بلکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ ان کے خیالات اور نظریات کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔
عالمی جنگ کے آغاز تک گاندھی جی کا عدم تشدد پر عقیدہ مزید پختہ ہو گیا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کمزور ملکوں کو حملہ آوروں کے خلاف عدم تشدد کے ذریعے مزاحمت کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عوام کو یہ امید دلائی جائے کہ وہ دشمن کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں اور اگر ضرورت پیش آئے تو جان دینے کے لیے تیار رہیں مگر کسی کی جان نہ لیں۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہر فرد کو مارنے کے بجائے مرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔گاندھی جی کا یقین تھا کہ ’’ہٹلر ’‘اور ’’مسولینی‘‘ جیسے ڈکٹیٹروں کو بھی محبت اور پیار کے ذریعے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا عزم تھا کہ ہر انسان محبت کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے اور یہی عدم تشدد کی طاقت ہے جو دنیا کو بدل سکتی ہے۔
جنوری 1948میں جب گاندھی جی’’ بِرلا ہائوس‘‘ کے ایک عبادتی جلسے میں تقریر کر رہے تھے تو اچانک ایک بم پھٹا۔ بم پھٹنے کی آواز کے باوجود انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی حالانکہ یہ بم ان کے قریب ہی چند ہی فٹ کی دوری پر گرا تھا۔ گاندھی جی نے اس واقعے کے بعد پولیس سے کہا کہ بم پھینکنے والے نوجوان جس کا نام ’’مدن لال‘‘ تھا کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ مدن لال پنجاب سے آیا ہوا ایک پناہ گزین تھا اور ہٹ دھرم ہندوئوں کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا۔یہ واقعہ بھی گاندھی جی کے عدم تشدد اور معافی کے اصولوں کی مثال پیش کرتا ہے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا جانا چاہیے، بلکہ محبت اور معافی کی بنیاد پر عمل کیا جانا چاہیے۔ یہ ان کی فلسفہ زندگی کی ایک اہم خصوصیت تھی، جس نے انہیں معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کی راہ پر گامزن کیا۔
گاندھی جی کا کہنا تھا کہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’ ہندوستان کا مشن دیگر ممالک سے بالکل مختلف ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستان کی مٹی میں جو روحانیت رچی بسی ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ہندوستان نے مشکل حالات کا سامنا ہمیشہ خدا داد صلاحیتوں سے کیا ہے نہ کہ فولادی ہتھیاروں سیاور آج بھی وہ ایسا کر سکتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے ظالموں اور جابروں کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں، اور یورپ میں جاری خوفناک جنگ اس کی ایک واضح مثال ہے‘‘۔’’ہندوستان اپنی قدرتی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہر مسئلے کا حل نکال سکتا ہے۔ تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جب بڑے بڑے ظالم بھی روحانی قوت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ شاعروں نے ان کہانیوں کو اپنے کلام میں سمویا ہے اور قصہ گووں نے بھی ان واقعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے‘‘۔
گاندھی جی نے واضح کیا کہ ان کا مذہب کسی جغرافیائی حد کا محتاج نہیں ہے۔ اگر ان کا یہ یقین مستحکم ہے تو یہ یقین ہندوستان سے ان کی محبت کو دوچند کر دے گا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیاور وہ کہتے تھے کہ’’ اگر کبھی ہندوستان تشدد کی راہ اختیار کرے گا تو وہ ہندوستان چھوڑنے کو ترجیح دیں گے‘‘۔ یہ ان کے عدم تشدد کے اصولوں کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے عزم کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ گاندھی جی کے مطابق ہندوستان کی تقدیر مغرب کی جنگ و جدل پر نہیں ٹکی ہوئی ہے۔ ہندوستان دراصل امن اور شانتی کا گہوارہ ہے، لیکن اس پر خطرات ضرور منڈلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ہندوستان کی روح مجروح ہو جائے اور ایسا ہونا بہت تکلیف دہ ہوگا‘‘۔ (ماخوذ از انڈیا آف مائی ڈِرِیمس)
مہاتما گاندھی کی تعلیمات پر غور کرنے سے ہمیں تین بنیادی پہلو نظر آتے ہیں: عدم تشدد، سچائی اور سیاسی حقوق کا حصول۔ وہ ہمیشہ ہمیں عدم تشدد کے راستے پر چلنے اور سچائی کو اپنانے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کے نزدیک انفرادی سیاسی حقوق، جیسے کہ حق رائے دہی اور سوراج، بھی انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔گاندھی جی امن پسندی اور صلح جوئی کے پرچارک تھے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے حضرت محمد ؐاور بدھ مت کی تعلیمات کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک بار یوں کہا کہ ’’میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ زندگی موت کی آغوش میں سچائی اور جھوٹ کے درمیان اور روشنی اور اندھیرے کے بیچ اپنا وجود قائم رکھتی ہے‘‘۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا زندگی، سچائی اور نور ہے اور وہ محبت اور اعلیٰ ترین وجود ہے۔
ایک اور موقع پرگاندھی جی نے حضرت محمد ؐ کی سیرت اور اسلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اسلام نے تلوار کے زور پر اپنا مقام نہیں بنایا، بلکہ اس کا سبب پیغمبر کی اپنی ذات کا کامل فنا، سادگی، وعدوں کی ذمہ داری، دوستوں کے ساتھ عقیدت، دلیری، بے خوفی، اور خدا پر پختہ ایمان ہے‘‘۔ ایک دفعہ’’ زمیندار‘‘ اخبار میں گاندھی جی کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وہ اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز حکومت سے بے حد متاثر تھے۔ وہ ہندوستان کے حکمرانوں کو بھی مشورہ دیتے تھے کہ وہ ان خلفاء کے طرز عمل سے حکومت کرنے کا سبق سیکھیں۔ آج آپ کو احترام کے ساتھ مہاتما گاندھی اور باپو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے آپ کو ’’بابائے قوم‘‘ یا ’’راشٹر پتا‘‘کے لقب سے نوازا گیا ہے۔
مہاتما گاندھی اپنے آخری لمحات میں بھی دنیا کو عدم تشدد اور اہنسا کا پیغام دیتے رہے۔ 30 جنوری 1948 کی شام وہ عبادتی جلسے میں شرکت کے لیے اپنے کمرے سے نکلے اس روز وہ اپنے معمول سے کچھ دیر سے باہر آئے اس لیے تیز قدموں سے جلسہ گاہ کی جانب بڑھے ان کی دو پوتیاں، آکھا اور منو، بھی ان کے ساتھ تھیں۔جلسے میں پہنچ کر گاندھی جی نے اپنی تاخیر کے لیے حاضرین سے معافی مانگی اور ہاتھ جوڑ کر سب کو سلام کیا۔ عین اسی وقت ’’ناتھو رام گوڈسے‘‘ نے اٹھ کر قریب سے رِیوالور کی تین گولیاں چلائیں۔ گاندھی جی نے ’’ہے رام‘‘کہا اور گر پڑے۔ گوڈسے کے خلاف مقدمہ چلا اور اسے پھانسی کی سزا دی گئی لیکن ہمارا یقین ہے کہ اگر گاندھی جی بچ جاتے تو وہ اس سزا کی کسی صورت اجازت نہیں دیتے۔ امن کے اس پیامبر پر پہلے بھی کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن ہر بار انہوں نے اپنے حملہ آور کو معاف کر دیا۔ یہ ان کی عدم تشدد کی عزم کی بہترین مثال ہے۔
آج ہندوستان کی صورت حال نہایت تشویشناک ہے جہاں ہر طرف نفرت اور تشدد کا بازار گرم ہیایسے میں مہاتما گاندھی کے اصولوں کی یاد آتی ہے جو ہمیں امن، محبت اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ گاندھی جی کی تعلیمات نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی عدم تشدد کی فکرجو انہوں نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اپنائی آج ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیں آپسی محبت، معافی اور بھائی چارگی کی ضرورت ہے۔گاندھی جی نے ہمیشہ تشدد کے بجائے سچائی اور محبت کا راستہ اپنانے پر زور دیا۔ آج ہمیں ان کی اس تعلیمات کو یاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی نفرت اور بے اعتمادی کے سائے کو دور کر سکیں۔ اگرچہ گاندھی جی کو ہم نے کھو دیا ہے لیکن ان کے اصول ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے ہم ایک بہتر معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔آج ضرورت ہے کہ ہم گاندھی جی کے اصولوں کو اپنائیں اور ان کی طرح تحمل، صبر اور محبت کے راستے پر چلیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ باہمی محبت اور معافی ہی وہ کلید ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں اور نفرت کے ماحول کو ختم کرتی ہیں۔ اگر ہم گاندھی جی کی رہنمائی کو اپنی زندگی میں شامل کریں تو یقیناہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو عزت و احترام دیا جائے اور تشدد کی جگہ محبت اور بھائی چارگی ہو۔ گاندھی جی کی تعلیمات کو یاد رکھنا ہی نہیں بلکہ ان کے نشان پر چلنا ہماری ذمہ داری ہے، تاکہ ہم ایک باہمی محبت بھرا اور امن قائم رکھنے والا معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ (آخری قسط)
[email protected]
مہاتما گاندھی :اہنسا اور عدم تشدد کا پیغام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS