چھوٹی عمر ، بڑا جرم

0

جرم کوئی بھی کرسکتاہے اورواردات کوئی بھی انجام دے سکتاہے، اس کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے ۔بڑاآدمی چھوٹا جرم کرسکتاہے اورچھوٹاآدمی بڑا جرم کرسکتاہے ۔شہری بھی جرم کرسکتاہے اورگائوں والابھی جرم کرسکتاہے ۔کون کب کس جرم کا ارتکاب کردے ،کوئی نہیں جانتا۔ممبئی میں ہفتہ 12اکتوبرکوجس طرح قدآورلیڈرباباصدیقی کاگولی مارکر قتل کیا گیا یاجن لوگوں نے قتل کے واقعہ کو انجام دیا، کوئی سوچ سکتاتھاکہ ایسابھی وائی سیکورٹی والے لیڈرکے ساتھ ہوسکتا ہے۔قتل کی منصوبہ بندی ایسی تھی کہ پٹاخہ کے شور میں گولی چل گئی ، کام بھی ہوگیا اور جب تک لوگ سمجھتے ، دیر ہوچکی تھی ، اس طرح کی انہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ قاتل بھی ایسے نکلے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ وہ قتل جیسی سنگین واردات کوانجام دے سکتے ہیں ،حالانکہ قتل کا شبہ لارنس بشنوئی گینگ پر ظاہر کیا گیا اوراس نے ذمہ داری بھی لی ہے، لیکن قاتلوں کے تار اترپردیش اور ہریانہ سے جڑرہے ہیں ۔کہاجارہا ہے کہ 2قاتل دھرم راج کشیپ اور شیوگوتم اترپردیش ضلع بہرائچ کے قیصرگنج تھانہ کے گنداراگائوں کی ایک جھونپڑی میں رہنے والے غریب کنبہ سے تعلق رکھتے ہیں ، جو پیسہ کمانے کیلئے پنے گئے تھے اورممبئی میں باباصدیقی کے قتل میں حصہ لیا ، دونوں کی عمر 20سال سے زیادہ نہیں ہے ۔ا س عمر میں جرائم کا خیال تک نہیں آتا، جبکہ تیسرے قاتل گرمیل بلجیت سنگھ کا تعلق ہریانہ سے بتایاجاتا ہے۔الگ الگ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں گینگ کاحصہ کیسے بنے؟ گولی چلانے کی ٹریننگ کہاں لی؟ شوٹر کیسے بنے؟ اور کس کے کہنے پر کس لئے قتل کیا ؟ یہ اہم سوالات ہیں۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ تینوں کی کوئی کریمنل ہسٹری نہیں ہے ، تب تو ان سوالوں کا جواب تلاش کرنااوربھی ضروری ہوجاتا ہے ، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے ۔
بات صرف کم عمر کے نوجوانوں کے ذریعہ باباصدیقی کے قتل کی نہیں ہے ،اس طرح کے قتل اور بھی ہوئے ہیں ،اوران میں بھی شوٹر کم عمر کے تھے اوران کی نہ تو مقتول سے کوئی دشمنی تھی اورنہ کوئی جھگڑاہواتھا۔اگر ہم ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو پولیس کی تحویل میں عتیق احمد اور اشرف کا گولی چلاکرقتل کرنے والے بھی حمیر پورکے سنی سنگھ ، باندہ کے لولیش تیواری اورقیصرگنج کے ارون موریہ کی عمر بھی 18سے 22 سال کے درمیان تھی۔ ایک تو ان کی عمر زیادہ نہیں ہیں ، دوسرے ان کی کوئی کریمنل ہسٹری نہیں ہیں،تیسرے الگ الگ اضلاع سے تعلق کے باوجود تینوں ایک گینگ کا حصہ بن کرکسی اور ضلع میں قتل کے واقعہ کو پولیس کی موجودگی میں انجام دیا ، وہ بھی غیر ملکی مہنگے اورممنوع ہتھیار سے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ عتیق اوراشرف سے ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی اورنہ ہی کوئی جھگڑا ہواتھا،بلکہ جان پہچان بھی نہیں تھی۔لکھنؤ کورٹ میں پیشی کیلئے لائے گئے سنجیوجیواکو قتل کرنے والا بھی جونپور کے چھوٹے سے گائوں کے 24سال کا وجے یادوتھا، جو ممبئی کمانے گیا تھااورلکھنؤ میں قتل کے واقعہ کو انجام دیا ۔منابجرنگی کے قاتلوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ۔ کوئی بھی سمجھ سکتاہے کہ اتنی کم عمر میں کوئی بھی پیشہ ور قاتل نہیں ہوسکتا ، پھر بھی سنگین واردات کو کس طرح انجام دیا گیا ؟گائوں کے لڑکے کمانے کیلئے بڑے شہر جارہے ہیں اوروہ شوٹر وکریمنل بن کربڑے بڑے لوگوں کا قتل آسانی سے کررہے ہیں ، جبکہ زیادہ عمر کے لوگ ان کا سامناکرنے سے کانپتے اور ڈرتے ہیں ۔جو عمر پڑھنے لکھنے ، کمانے اورشادی کرنے کی ہوتی ہے ،اس میں وہ کریمنل بن کر دوسروں کی جان لے رہے ہیں اوراپنی زندگی بھی خراب کررہے ہیں ، کیونکہ ایسے واقعات کو انجام دینے کے بعد وہ توجیل چلے جائیں گے ، پھر کسی کام کے نہیں رہیں گے ۔ وہ مقتول کے کنبہ کو جتنا درددیں گے ،اس سے کم اپنے کنبہ کے سامنے پریشانی نہیں کھڑی کریں گے ۔ظاہر سی بات ہے کہ جتنی مصیبت مقتول کے اہل خانہ پر آتی ہے ، اتناہی قاتلوں کے گھروالے پریشان ہوتے ہیں ۔ان کا سکون چھین جاتاہے۔
گائوں کے سیدھے سادے کم عمر کے نوجوان اگرشوٹر بن رہے ہیں اور ٹارگیٹ کلنگ کررہے ہیں، تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہے اور تشویش کی بات ہے ۔اس طرح کے واقعات کا سلسلہ بڑھتا جارہاہے ۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر میں شوٹر بڑے لوگوں کا قتل کررہے ہیں ۔ ایسے واقعات کی تہہ میں جانے کی ضرورت ہے ، تبھی چھوٹی عمر میں قتل جیسے سنگین جرائم کو روکا جاسکتاہے ۔گائوں کے نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں داخل ہونا فکرمندی کی بات ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS