واک آئوٹ یا بائیکاٹ کی سیاست

0

گزشتہ 2دہائی سے واک آئوٹ یا بائیکاٹ کی سیاست کچھ زیادہ ہی کی جارہی ہے ۔کبھی کبھی کسی مسئلہ میں سیاسی پارٹیاں غیر جانب دار بھی رہتی ہیں۔ اس طرح بظاہر وہ حمایت یا مخالفت میں نہ رہ کرایک طرح سے حمایت ہی کا کام کرتی ہیں۔ ریاستی اسمبلیوں اورپارلیمنٹ میں کسی ایشو پر پارٹیاںخوب مخالفت کرتی ہیں، حتیٰ کہ اس پر بحث کے دوران بھی اپوزیشن پارٹیاں حکومتوں کو گھیرتی ہیں ،لیکن آخر میں جب ووٹنگ کا وقت آتا ہے، تووہ احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی یا پارلیمنٹ سے واک آئوٹ کرجاتی ہیں، دوسرے الفاظ میں میدان چھوڑکر بھاگ جاتی ہیں ، جس سے وہ بل آسانی سے پاس ہوجاتاہے اور اپوزیشن کی تقریری مخالفت کوئی کام نہیں آتی ہے ۔ان کے اس رویہ سے یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ وہ حقیقتاًبل کی مخالف تھیں ، یا ان کی مخالفت صرف دکھاواتھی، کیونکہ جو مخالفت آخر تک نظر نہ آئے ، اس کو حقیقی مخالفت کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔یہی حال بعض ایشوز پر اہم میٹنگوں میں دیکھنے کو ملتاہے ۔یہ جانتے ہوئے کہ بائیکاٹ سے میٹنگ کے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے ، اس کا بائیکاٹ کردیا جاتاہے ۔ اس طرح جو نہیں چاہتے ہیں، میٹنگ میں وہی فیصلہ ہوجاتاہے ۔جب حکومت اپنی طاقت اور اختیارات کااستعمال کررہی ہو، تومخالف جماعتوں کو آخر تک فیصلہ کو بدلنے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے ۔خاص طور سے اس وقت جب وہ دیکھ رہی ہیں کہ سرکار اپنے فیصلہ کو بدل نہیں سکتی اوراس کا ہٹ دھرمی والارویہ ہے ، تو انہیں بھی سرکارکو ناکام بنانے کی مؤثر حکمت عملی اختیارکرنا چاہئے ۔واک آئوٹ اور بائیکاٹ سے تو سرکار کا کام اور آسان ہوجاتاہے ۔وہ تو چاہتی ہے کہ مخالف جماعتیں میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور ووٹنگ کے دوران کوئی مخالفت نہ ہو۔ملک کی تاریخ میں پارلیمنٹ اورریاستوں میں بے شمار بل بحث کے بغیر یا اپوزیشن کے واک آئوٹ کے دوران پاس ہوگئے اور وہ آج قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میںنہ تو اپوزیشن کی مرضی شامل ہے اور نہ مخالفت۔ ایک بار بل پاس ہونے کے بعد پھر ان کو کوئی بدل نہیں سکتا، چاہے کتنی ہی بیان بازی کریں ۔اس طرح دیکھا جائے توپارلیمنٹ اورریاستی اسمبلیوں سے واک آئوٹ یا میٹنگوں کا بائیکاٹ ایک ناکام حربہ ہے ، پھر بھی ہر بار وہی روش نظر آتی ہے ۔ سیاست میں مخالف جماعت یا حکومت کوئی چال چل رہی ہے ، تو اس کا توڑ بھی کسی چال ہی سے تلاش کیجئے ، نہ کہ حکومت کی چال کامیاب ہونے کیلئے راہ ہموار کرنے کا کام کریں ۔پارلیمنٹ ، اسمبلیوں اورکارپوریشن میں واک آئوٹ یا بائیکاٹ سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا، وہاں جو بھی مقاصد حاصل ہوتے ہیں ، وہ ووٹنگ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ووٹنگ سے فراراختیار کیا، تو فیصلہ آپ ہی کے خلاف ہوگا۔ایسے میں بہتر یہی ہوگا کہ ووٹنگ میں حصہ لے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور فیصلہ کو بدلنے کیلئے سرکار کی طرح اپنی چال بھی چلیں ، ورنہ کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔تقریر یا بیان نہیں ، بلکہ ووٹنگ حمایت اورمخالفت کے اظہارکا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، جو فیصلہ کو بھی بدل سکتی ہے ۔مخالفت میں کتنے ہی بیانات دیں اورتقریریں کریں ، ان سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔یہ تو لوگ اپنی سطح پر تقریر اورتحریر کے ذریعہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ سیاست دانوں کو تو اپنی حمایت اور مخالفت کا اظہار پارلیمنٹ، اسمبلیوں اور کارپوریشن میں کرنا چاہئے ، وہ بھی ووٹنگ کے وقت ،جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ اصل فیصلے وہیں سے ہوتے ہیں ، قانون بھی وہیں سے پاس ہوتے ہیں اوربہت سے ممبران کے انتخابات بھی وہیں ہوتے ہیں ۔ جب منتخب ارکان اپنی حمایت اورمخالفت کو تقریر تک ہی محدود رکھیں گے ، تو ان میں عوام میں کیا فرق رہے گا؟ اور ان کو منتخب کرکے پارلیمنٹ ، اسمبلیوں اور کارپوریشن میں بھیجنے کا فائدہ کیاہے ؟
واک آئوٹ ، بائیکاٹ یا غیرجانبدار رہنے سے نہ کبھی کوئی مسئلہ حل ہوا ہے اورنہ ہوگا۔ ان کی حیثیت قانون کی نظر دکھاوے کے سواکچھ نہیں ہے ۔بہتریہی ہوگا کہ ووٹنگ میں حصہ لیں اور اگر اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتاہے ،تو قانونی لڑائی لڑیں۔ اپوزیشن پارٹیاں رونا روتی ہیں کہ بہت سے قانون ان کی غیرموجودگی میں پاس کرالئے گئے ، ان پر نظرثانی ہونی چاہئے ۔ سوال یہ ہے کہ جب ان کے پاس ووٹنگ کے ذریعہ مخالفت کا موقع تھا ، تو انہوں نے ایسارویہ کیوں اختیارکیاکہ وہ موقع ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ؟اس پر سوچنے ، سمجھنے اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS