حسن نصراللہ کی شہادت سے اسرائیل کے مسائل میں اضافہ ہوگا: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

لبنان کی تحریک مقاومت ’حزب اللہ‘ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ پر اسرائیلی فوج نے اس وقت حملہ کیا جب نیتن یاہو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر پیش کر رہے تھے۔ جس اقوام متحدہ کی کسی قرار داد پر یا اس کے کسی ادارہ کی رپورٹ اور بیانات پر اسرائیل نے کبھی توجہ تک نہیں دی اسی عالمی انجمن میں کھڑے ہوکر نیتن یاہو نے اپنے جھوٹ کا طومار پیش کیا اور دنیا کے لیڈران ان کی باتیں بیٹھ کر سنتے بھی رہے۔ اس سے اقوام متحدہ کی ساکھ مزید مجروح ہوئی ہے۔ چند ممالک نے گرچہ نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ بھی کیا اور ہال چھوڑ کر باہر چلے گئے لیکن ایک بڑی تعداد اپنی جگہ بیٹھی رہی۔ نیتن یاہو ایک ایسے لیڈر ہیں جن پر غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے سامنے عرضی پیش کی جا چکی ہے کہ ان کے خلاف گرفتاری کا فرمان جاری کیا جائے ایسے لیڈر کا متفقہ طور پر بائیکاٹ کیا جانا چاہئے تھا تاکہ عالمی قوانین اور انسانی قدروں کی عدم پاسداری کے نتائج بھگتنے کا واضح پیغام عالمی سطح پر ہر مطلق العنان حکمران تک پہنچتا۔ لیکن شاید مغرب زدہ عالمی نظام میں عدل و انصاف اور انسانی قدروں کے تحفظ کی باتیں نہ صرف بے سود معلوم ہوتی ہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی۔ موجودہ عالمی نظام میں جنگل کا قانون نافذ ہے جس میں ہر محاذ پر فتح حاصل کرنے کے لئے صرف زور و قوت کا ہی معیار باقی رہ گیا ہے۔ ایسی حالت میں کمزور قومیں محض بیکسی کا منظر پیش کرتی ہیں اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ان تمام وسائل کے استعمال پر مجبور ہوجاتی ہیں جو ان کے محدود دائرۂ اختیار میں ہوتے ہیں۔ یہی کمزور قومیں جب طاقت کے متوالوں کے مفادات کے لئے چیلنج بن جاتی ہیں تو انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال کر ان کے خلاف شب و روز کا پروپیگنڈہ جاری رکھا جاتا ہے اور اس شدت کے ساتھ اس پروپیگنڈہ کو چلایا جاتا ہے کہ خود مقہور قوموں کے افراد بھی اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گویا ایک طرف مزاحمت کاروں کو جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں سے ختم کیا جاتا ہے اور دوسری طرف میڈیا کے ذریعہ ان کے اپنے ہی ان جگر گوشوں کو بھی ان سے متنفر بنا دیا جاتا ہے جن کے بہتر مستقبل کے لئے یہ مزاحمت کار کوشاں رہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی رویہ ’حماس‘اور ’حزب اللہ‘ کے ساتھ بھی برتا جا رہا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں آخر کس مقصد کے لئے کوشاں ہیں؟ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے ناجائز قبضہ کو ہٹایا جائے اور ایک آزاد ریاستِ فلسطین کا قیام عمل میں آئے تاکہ یہ باغیرت قوم دنیا کی باقی قوموں کی طرح پر وقار زندگی گزار سکے۔ ایک ایسی ریاست وجود میں آئے جن کے شہریوں کو اسرائیل کی تفتیشی بیرکوں سے نہ گزرنا پڑے، جن کے گھر بار اور کھیت کھلیانوں کو آبادکاروں اور صہیونی فوج و پولیس کے ہاتھوں برباد نہ کیا جائے، جن کے بچے گھر میں سوئیں تو بم کے گولوں سے ان کی نیند خراب اور ان کی زندگیاں تباہ نہ ہوں۔ یہ ایسے مطالبے ہیں جن کو خود مغربی ملکوں کے ارباب فکر اور اہل سیاست نے اپنی قوموں کے مفادات کی حفاظت کی راہ میں بنیادی قرار دیئے ہیں۔ ان مقاصد و مطالب کو انسانی حقوق کی فہرست میں ڈال کر ان کے تحفظ کے لئے سخت قوانین بنائے گئے ہیں اور ان کے نفاذ میں مغرب کے اندر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی مطالبے تیسری دنیا کی قومیں کرتی ہیں تو آخر ان قوانین کی تنفیذ میں دوہرا معیار کیوں اپنایا جاتا ہے جن کے بغیر مغرب و امریکہ اپنے معاشرہ کے مہذب ہونے کا تصور تک نہیں کر سکتے؟ ’حماس‘ کے قیام کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اگر حق و انصاف کے ساتھ مسئلۂ فلسطین کو حل کر لیا جاتا۔ اسی طرح ’حزب اللہ‘ کی تاسیس کا تصور لبنان کے غیرت مند نوجوانوں کے سروں میں پیدا نہیں ہوتا اگر 1982 میں اسرائیل نے ان کی زمینیں غصب نہ کی ہوتی اور وہاں قتل و خون اور مسلسل تباہی کا بازار نہ گرم کیا ہوتا۔ ’حماس‘ ہو یا ’حزب اللہ‘ یہ صہیونی مظالم اور امریکی و مغربی دوغلے پن کی کوکھ سے جنم لینے والی مزاحمت کی وہ تحریکیں ہیں جنہیں ان کے لیڈران کے قتل سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ان مزاحمتی تحریکوں کی زندگیوں کی ڈور ہی اسرائیل کے ناجائز وجود اور ناروا صہیونی مظالم کے سلسلہ سے بندھی ہوئی ہے۔ جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا اور اسرائیل عالمی قانون پر کاربند رہنے والے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے برتاؤ کرنا شروع نہیں کر دیتا تب تک مزاحمت کا یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔ اس مسئلہ کا منصفانہ حل سامنے آنے کی صورت میں خود مغربی ممالک کے مفادات کو اس خطہ میں تقویت ملے گی۔ اس کے لئے امریکہ و مغرب کو غیر جانبداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا اور انہیں اپنے جدید استعماریت کے دائرہ سے باہر آنا ہوگا۔ اسرائیل کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر اس کو واقعی ایک پر امن ریاست کی تلاش ہے تو اس کا حصول مہلک ہتھیاروں اور مغرب کی حمایت سے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس دنیا کی تصویر بدلتی رہتی ہے۔ آج کی طاقت ور تہذیبیں کل کے کمزور ترین قوموں کی فہرست میں بہت جلد شامل ہو جاتی ہیں۔ اس کے پرامن وجود کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک اور وہاں کی قوموں کے ساتھ ایک مہذب قوم کی طرح برتاؤ کرے۔ مافیاؤں کی طرح برتاؤ کرنے کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں ہوتا ہے۔ مزاحمت کی علامتوں کو ختم کرنے سے وہ تحریکیں ختم نہیں ہو سکتی ہیں جن کے وجود کا مقصد ہی اپنے حقوق کو ہر حال میں حاصل کرنا ہے۔ اب تک اسرائیل نے اس خطہ میں ایک مافیا اسٹیٹ کی طرح ہی برتاؤ کیا ہے اور مزاحمت کے قائدین کو راستہ سے ہٹایا ہے۔ لیکن کیا اس سے اسرائیل کو کامیابی مل گئی؟ اسرائیل کو خود غور کرنا چاہئے کہ کیا 1992 میں عباس موسوی کو قتل کرنے کے بعد سید حسن نصر اللہ جیسے قائد ’حزب اللہ‘ کو مہیا نہیں ہوئے جنہوں نے گزشتہ 32 برسوں میں اس جماعت کو اس بلندی تک پہنچا دیا کہ جس کا خواب بھی شاید موسوی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ اب سید حسن نصراللہ کو شہید کر دیا گیا ہے تو کیا ان کا کوئی متبادل کھڑا نہیں ہوگا؟ بہت ممکن ہے کہ کوئی ایسا نوجوان ان کی جگہ لے جو اسرائیل کے لئے سید حسن نصر اللہ سے زیادہ بڑا سر درد بن جائے۔ ’حزب اللہ‘ نے حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد یہ بیان بھی جاری کر دیا ہے کہ جب تک غزہ پر اسرائیلی جارحیت بند نہیں ہوتی اہل فلسطین کے ساتھ تعاون و تضامن کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایران کی اعلیٰ ترین قیادت نے بھی مزاحمت کے جاری رہنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نمایاں چہروں کو ختم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ’حزب اللہ‘ کو اگر ایک کتاب مان لیا جائے تو حسن نصراللہ صرف سرورق تھے۔ کیا سرورق کو ہٹا دینے سے کتاب کے مشتملات پر کوئی فرق پڑے گا۔ اسرائیل کو سمجھنا چاہئے کہ پالیسی سازی کا کام کرنے والے دماغ ایران میں زندہ ہیں اور ان کی کوئی شکل نہیں ہے اس لئے ان کو ختم بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک پالیسی کے نفاذ کے لئے دست و بازو کی ضرورت کا معاملہ ہے تو اس کی کمی ’حزب اللہ‘ کے پاس نہیں ہے۔ یہی حال حماس کا ہے۔ اس کے بیشمار ممتاز ترین قائدین کو اسرائیل نے اب تک شہید کیا ہے اور حال میں اسماعیل ھنیہ کو ایران کی سر زمین پر شہید کیا گیا۔ لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ھنیہ کے بعد ’حماس‘ نے یحییٰ سنوار کو اپنا صدر منتخب کرلیا جو اسرائیل کے پہلو میں کسی کانٹے سے کم نہیں ہیں۔ در اصل لبنان تک جنگ کو وسعت دینے کے پیچھے غزہ میں اسرائیل کی سخت ناکامی پر پردہ ڈالنا مقصود ہے۔ غزہ جنگ کا مقصد اسرائیل نے یہ طے کیا تھا کہ وہ ’حماس‘ اور دیگر تحریکاتِ مزاحمت کو ختم کرے گا اور ان کی تحویل میں موجود اسرائیلیوں کو آزاد کروائے گا۔ ایک سال کی مسلسل جنگ کے باوجود نہ صرف اسرائیل اپنا کوئی مقصد حاصل کر سکا بلکہ دنیا کے سامنے یہ ثابت بھی ہوگیا کہ اس کی فوج اخلاق سے عاری اور محض مافیاؤں کا ایک ٹولہ ہے جس کو کسی عالمی قانون کی پاسداری کا خیال تک نہیں ہے۔ اب ’حزب اللہ‘ کے خلاف جنگ کا مقصد یہ طے کیا گیا ہے کہ شمالی اسرائیل میں ان آبادکاروں کو ان کے گھروں میں واپس بھیجنا ہے جو ’حزب اللہ‘ کے حملوں کے خوف سے بھاگے ہوئے ہیں اور ہوٹلوں میں مقیم ہیں اور جن کی قیمت اسرائیل کو چکانی پڑتی ہے۔ حالات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اس مقصد کو پورا کرنا بھی اسرائیل کے لئے فی الحال آسان نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب اسرائیل اپنے ہتھیاروں سے فلسطین و لبنان کی عام انسانی زندگیوں کو تباہ تو کر سکتا ہے لیکن اپنے جنگی مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے نیتن یاہو کو سیاسی حل کی طرف ہی آنا ہوگا۔ اس کے لئے بات چیت کا راستہ ہی واحد حل ہے جس کونیتن یاہو نے اب تک مسلسل ناکام بنایا ہے کیونکہ وہ ہر حال میں جنگ کی طوالت کے حق میں ہیں تاکہ ان کا سیاسی کریئر بچا رہے اور وہ کرپشن کے الزامات میں جیل جانے سے بچ جائیں، لیکن یہ بیکار کوشش ہے کیونکہ جنگ کے خاتمہ کے بعد جیل ہی نیتن یاہو کا مستقبل ہے۔ مزاحمت کے قائدین کو شہید کرکے اسرائیل کے عوام کو وقتی کامیابی کا فریب تو دیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے اصل مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔ سید حسن نصر اللہ ایک تجربہ کار لیڈر اور جیوپالیٹیکس کی گہری سمجھ رکھنے والے پالیسی ساز تھے، جنہوں نے دھمکی آمیز بیانات تو ضرور دیئے تھے لیکن کبھی جنونی اور بے مقصد حملہ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اس کے نتائج کو ذہن میں رکھتے تھے۔ اب ان کے جانے کے بعد جو قیادت سامنے آئے گی وہ بھی اتنی دور رس ہو کوئی ضروری نہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اسرائیل کو ہر قسم کے حملوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ایک پرامن اسرائیل کے خواب میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسرائیل کا لبنان مشن اور سید حسن نصراللہ کو شہید کرنا انجام کار اسرائیلیوں کے لئے سخت دھوکہ ہی ثابت ہوگا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS