طفیل مگسی
سقراط دنیائے فلسفہ کاعظیم اور جلیل المرتبت معلم تھا، جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ سقراط 470 سال پہلے یونان کے معروف شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد ناپید ہیں۔ تاہم افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ ایک مجسمہ ساز تھا، جس نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت پائی۔ تاہم اپنی علمی مساعی کی بدولت اسے گھر بار اور خاندان سے تعلق نہ تھا۔ احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔ فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتائوں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا سنائی۔
سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یونان کے روایتی شہریوں کی طرح خوبصورت اور پر کشش نہ تھا بلکہ وہ جسمانی لحاظ سے بھدا اور بدصورت تھا۔ اس لیے بچپن میں اس کے اسکول کے ساتھی اسے مینڈک کہا کرتے تھے۔ اس کے قریبی دوست کرائیٹو نے اس کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ ہی سے بے فکرہ اور لاپرواہ تھا۔ اس کے چھوٹے قد پر بے ترتیب شکنوں سے پرلباس ہوتا۔ اس کے ہونٹ موٹے اور کھردرے تھے۔ اس کی گردن کندھوں میں دھنسی ہوئی تھی۔ آنکھیں بڑی بڑی اور حلقوں سے ابھری ہوئی تھیں۔ اس کی ناک چپٹی اور پیشانی چھوٹی تھی۔ اس کی داڑھی بے ترتیب اور الجھی ہوئی ہوتی۔ اس کا لبادہ عموماً اس کے جسم سے ڈھکا ہوا رہتا۔وہ اپنے بارے میں کہتا کہ یہ دیوتائوں کی مرضی ہے کہ میں ایسا ہوں کیونکہ ہر مخلوق کو خلق کرنے والا خود بہتر سمجھتا ہے کہ مخلوق کو کیسا ہونا چاہیے۔
ایک واقعہ:
سقراط کے لڑکپن کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک واقعہ سقراط کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب کرائیٹو نے بیان کیا ہے کہ میں اور سقراط ایک دن کمہار کے چاک کے پاس سے گزر رہے تھے۔ کمہار نے نرم نرم ملائم مٹی کا ایک لوندا چاک پر رکھا، چاک کو تیزی سے گھمایا اور مٹی کے لوندے میں اپنے دونوں ہاتھوں کوکچھ اس طرح سے حرکت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت مرتبان مٹی کے لوندے کی جگہ پر نمودار ہو گیا۔ سقراط نے کہا کہ ابھی تو چاک پر مٹی کا لوندا تھا یہ خوبصورت مرتبان آخر کہاں سے آ گیا پھر خودہی کہنے لگا ہاں یہ مرتبان کمہار کے ذہن میں تھا اور پھر ہاتھوں کے ہنر سے منتقل ہو کر اس چاک پر آ گیا۔سقراط نے نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی بھی مادی چیز جیسے مکان، کرسی یا کوئی مجسمہ یا تصویر پہلے انسان کے ذہن میں آتی ہے، پھر انسان اپنے ذہن کے اس نقشے کو مادی شکل میں ڈھالتا ہے۔یہ ایک زبردست اور غیر معمولی دریافت تھی۔ سقراط نے ہنر، فن اور تخلیق کے بارے میں جان لیا تھا۔ سقراط خیال کرتا تھا کہ یہ الہامی نشان دیوتائوں کی جانب سے اس کی رہنمائی کرتا ہے کیونکہ دیوتائوں کو تمام چیزوں کا علم ہے۔
سقراط جب جوانی میں داخل ہوا تو پھر وہ الہامی نشان کی کیفیت کو سمجھنے لگا، اسے یقین ہونے لگا کہ اس کے ضمیر میں اچھائی اور نیکی کے حوالے سے کوئی خاص بات ہے۔ دراصل الہامی نشان کو ضمیر کی آواز کہنا زیادہ مناسب ہے جو کہ اسے غیر ضروری کام کرنے سے روکتا تھا اور اچھے اور نیک کام کرنے کا مشورہ دیتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ سقراط کی اس کیفیت کا چرچا ہونے گا۔ ایتھنز کے لوگ اس کے متعلق بحث کرنے لگے لیکن سقراط نے کبھی بھی اپنی اس کیفیت کے حوالے سے نہ کوئی بات کی اور نہ ہی کسی کو اس کیفیت کی تفصیل بتائی۔
شادی:
ایتھنز کے رواج کے مطابق سقراط نے جوانی میں مرٹو (Myrot) نامی خاتون کے ساتھ شادی کی جو طاعون کی وبا میں مر گئی۔ سقراط نے دوسری شادی پینتالیس سال کی عمر میں زینتھی پی (Xanthippe) نامی خاتون سے کی۔
یہ خاتون سقراط سے عمر میں تقریبا بیس سال چھوٹی تھی لیکن خاصی بدزبان تھی۔ بیوی کی بدکلامی سے سقراط کے تحمل کو مزید تقویت ملی اور وہ اپنی بیوی کی بدکلامی کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا۔ سقراط کی دوسری شادی سے تین بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔
عالمانہ تبادلہ خیال :
سقراط مناظرے کے قائل نہیں تھے بلکہ انہوں نے دنیا کو مباحثے یا گفت و شنید کے ذریعے مسائل کے حل کے ایک نئے انداز سے روشنا کرایا۔ ان کا طریقہ بحث فسطائی قسم کا تھا، مگر اسے مناظرہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ اپنی بحث سے اخلاقی نتائج تک پہنچتے اور حقیقت کو ثابت کرتے۔ وہ پے در پے سوال کرتے اور پھر دوسروں پر ان کے دلائل کے تضادات عیاں کرتے اور یوں مسائل کی تہہ تک پہنچ کر منطقی و مدلل جواب سامنے لایا کرتے تھے۔
سقراط کے نظریات ان کی زندگی میں ہی یونان کے معاشرے میں مقبول ہونا شروع ہوگئے تھے اور ان کے گرد رہنے والے نوجوانوں نے مذہب اور طریقِ حکومت پر سوال اٹھانا شروع کردیے تھے ، سقراط کے نظریات اس وقت کے نظام کے لیے شدید خطرہ بن گیے تھے، بالاخر ایک دن شہر کے وسط میں لگنے والی عدالت نے سقراط کو طلب کرلیا، اس موقع پر موجود جیوری ارکان کی تعداد 500 تھی۔
سقراط پر الزام
سقراط کے خلاف تین بڑے الزام لگانے میںکامیاب ہوگئے۔
1۔ یہ ہمارے نوجوانوںکو گمراہ کر رہا ہے۔
2۔ یہ ہمارے دیوتائوںکو نہیں مانتا
3۔یہ ایک الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا۔
جیوری کے 500 ارکان میں سے 220 نے سقراط کے حق میں اور 280 نے سقراط کے خلاف فیصلہ دیا تھا، جس کے بعد اکثریتی ارکان نے ان کے لیے سزائے موت تجویز کی۔ جمہوریہ ایتھنز کے طریقہ کار کے مطابق سقراط کو اپنی صفائی دینے کا موقع دیا گیا اور اس موقع پر ان کی طویل تقریر تاریخ انسانیت پر ان کا سب سے بڑا احسان ہے۔
اپنی تقریر میں سقراط کہتے ہیں کہ ’’ ایتھنز ایک عظیم شہر ہے اور یہاں رہنے والے عظیم لوگ ہیں، آج یہاں کے لوگوں کو میری بات سمجھ نہیں آرہی ہے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ میری دعوت پر غور کریں گے۔ میرے لیے ممکن ہے کہ میں اپنے لیے جیل یا ملک بدری کی سزا چن لوں لیکن جب میرے شہر کے میرے اپنے لوگ میرے نظریات کا بار نہیں اٹھاسکتے تو پھرکوئی اور شہر میرے نظریات کا بار کیسے اٹھا پائے گا۔ میں چاہوں تو اوروں کی طرح اپنے بچوں کایہاں جیوری کے ارکان کے سامنے پھرائوں اور جیوری کے ارکان سے رحم کی اپیل کروں لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا کہ یہی وہ رسم و رواج ہیں جن کی میں نے ساری زندگی مخالفت کی ہے اور اب اس عمر میں ان سے پھر جانا میرے لیکن ممکن نہیں ہے‘‘۔
جیوری کے ارکان سے سوال
سقراط نے جیوری کے ارکان سے سوال کیا کہ ’’آپ لوگوں نے یہ سمجھ کر میرے لیے موت کی سزا تجویز کی ہے کہ مستقبل آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھے گا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ میری زندگی کا چراغ گل کر کے آپ اپنی غلط کاریوں پر تنقید کا راستہ روک لیں گے، تو یاد رکھیے، آنے والے وقت میں ایک نہیں کئی ہوں گے جو آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے۔جنہوں نے مجھے مجرم ٹھہرایا ہے اور اب ان سے میرا معاملہ ختم ہوا۔ اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ ہم اپنے اپنے راستوں کی طرف جاتے ہیں۔ میں مرنے کو اور آپ زندہ رہنے کو‘‘۔
وفات:
سقراط کی وفات کا دن تاریخ دانوں کے لیے موضوع بحث ہے کیونکہ قدیم مخطوطات سے ہمیں کوئی دن نہیں ملتا ، سمون کرچلی کی کتاب ’ بک آف ڈیڈ فلاسفرز‘ کے مطابق وہ 16 فروری 399 قبل مسیح کا دن تھا جب سقراط نے اپنے شاگردوں کو آخری درس دیا جس میں انہوں نے روح کے لافانی ہونے پر زور دیا، اور اس کے بعد زہر کا پیالہ پی کر اس دنیا سے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے رخصت ہوگئے، ان کے انتقال کے وقت ان کے شاگرد ان کے چہار جانب گریہ کررہے تھے۔
سقراط کے نظریات کا خلاصہ:
فی زمانہ سقراط کی کوئی تصنیف موجود نہیں ہے تاہم اس کے شاگردِ رشید افلاطون نے اس کے نظریات کو قلمبند کیا ہے اور اپنی ہردوسری تحریر میں اس کے حوالے دیے ہیں۔ اس کی نظریات کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
1-روح حقیقی مجرد ہے اور جسم سے جدا ہے۔
2-جسم کی موت روح کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کی آزادی کی ایک راہ ہے، لہذا موت سے ڈرنا حماقت ہے۔
3-جہالت کا مقابلہ کرنا چاہیے اور انفرادی مفاد کو اجتماعی مفاد کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
4-انسان کو انصاف و ظلم اور سچ و جھوٹ میں ہمیشہ تمیز روا رکھنی چاہیے۔
5-حکمت و دانش لاعلمی کے ادراک میں پنہاں ہے۔
6.-جاننا دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک رائے اور دوسرا علم۔
7-عام آدمی فقط رائے رکھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے جبکہ علم صرف حکیم کو حاصل ہوتا ہے۔
8نیکی علم ہے اس لیے اس کی تعلیم ہو سکتی ہے۔
9 -خیرو شر کے اصول عقلی طور پر لوگوں کو سمجھائے جاسکتے ہیں۔
10-بدی کرنے کے بعد سزا پانا بہ نسبت بچ کر نکل جانے سے بدرجہ ہا بہتر ہے۔
11-سچا آدمی موت سے نہیں بلکہ بد اعمالی سے گھبراتا ہے۔
12-عقل کلی کا وجود ہے۔
13-خیرمطلق کا وجود ہے۔
14-نیکی عقل ہے اور بدی جہالت۔
15-نیکی آپ ہی اپنا اجر ہے اور بدی آپ ہی اپنی سزا۔
وحدت خدا وندی پر یقین رکھنے و الا فلاسفر سقراط
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS