کشمیر میں انتخاب، وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں، سری لنکامیں حکومت کی تبدیلی، کجریوال کا استعفیٰ، آتشی کی وزارت علیا وغیرہ کے سیاسی ہنگاموں کے درمیان ایک خبر ایسی بھی رہی جسے حسب حال پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔وہ خبر عدالت عظمیٰ سے آئی تھی۔ 22ستمبر کوملک کی سب سے بڑی عدالت نے بچوں کے ساتھ ہونے والے اخلاقی جرائم کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ دیا جو نہ صرف تاریخی بلکہ کئی لحاظ سے دوررس بھی ہے۔آج کی ڈیجیٹل اور ورچوئل دنیا میں بچوں کا آن لائن جنسی استحصال ایک چھپی ہوئی وبا کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور بچوں کو اس سے بچانا دنیا کے تمام ضروری کاموں سے زیادہ اہم ہے۔اس لیے ایسے فیصلے کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی، تاکہ اس غیر انسانی اور سفاکانہ فعل کو روکا جا سکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چائلڈ پورنوگرافی کو نہ صرف دیکھنے بلکہ ڈاؤن لوڈ کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پادری والا کی بینچ نے کیرالہ اور مدراس ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر غور کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی چائلڈ پورنوگرافی کو ڈاؤن لوڈ کرکے دیکھتا ہے تو یہ جرم نہیں ہے، بشرطیکہ اس کی نیت صرف دیکھنے اور اس مواد کو پھیلانا نہ ہو۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے 13 ستمبر 2023 کو کہا تھا کہ اگر کوئی شخص فحش تصاویر یا ویڈیوز دیکھ رہا ہے تو یہ جرم نہیں ہے، لیکن اگر وہ دوسروں کو فحش مواد دکھاتا ہے تو یہ غیر قانونی ہوگا۔ کیرالہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی بنیاد پر مدراس ہائی کورٹ نے 11 جنوری 2024 کو چائلڈ پورنوگرافی کیس میں ایک ملزم کو بری کر دیا تھا۔ اس کے بعد جسٹ رائٹس فار چلڈرن الائنس اور نئی دہلی کی این جی او بچپن بچاؤ آندولن نے ان فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اپنا فیصلہ 12 اگست کو محفوظ رکھا تھا۔
ڈیڑھ ماہ بعد فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے واضح کیا ہے کہ چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق کسی بھی قسم کا مواد ڈاؤن لوڈ کرنا اور رکھنا ایک گھناؤنا جرم ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے فون-کمپیوٹر سے ایسا مواد نہیں ہٹاتا ہے یا پولیس کو اس کی اطلاع نہیں دیتا ہے تو اسے POCSO ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت جرم تصور کیا جائے گا۔ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے زیریں عدالتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے احکامات میں اسے ’ چائلڈ پورنوگرافی‘ کے طور پر نہ دیکھیں۔ اپنی دیگر تجاویز میں عدالت نے کہا کہ جنسی تعلیم کے جامع پروگراموں پر عمل درآمد بشمول چائلڈ پورنوگرافی کے قانونی اور اخلاقی نتائج کے بارے میں معلومات سے ممکنہ مجرموں کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں آن لائن فحش ویڈیو دیکھنا غیر قانونی نہیں سمجھا جاتا لیکن فحش ویڈیوز بنانا، شائع کرنا اور پھیلانا انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے تحت قابل سزا ہے اور اس پر پابندی بھی ہے۔ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو 3 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے متعلق جرائم کو روکنے کیلئے تعزیرات کی بھی متعدد دفعات ہیںجن کے تحت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں فحش ویڈیوز کا بازار بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اوسطاً ہر ہندوستانی ایک وقت میں پورن ویب سائٹ پر 8 منٹ 39 سیکنڈ گزارتا ہے۔ پورن دیکھنے والے 44فیصد صارفین کی عمریں 18 سے 24 سال کے درمیان ہیں جبکہ 41فیصد صارفین کی عمر 25 سے 34 سال کے درمیان ہے۔ گوگل نے 2021 میں اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ پورن دیکھنے کے معاملے میں چھٹے نمبر پر ہے۔ پورن ہب ویب سائٹ کے مطابق پورن ویب سائٹس استعمال کرنے والوں میں ہندوستانی تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔زیادہ تر بچے 11 سے 14سال کی عمر تک اس فحش مواد سے کسی نہ کسی صورت میں متعارف ہوچکے ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق دنیا کا ہر آٹھواں بچہ 12 ماہ میں انٹرنیٹ پر جنسی استحصال کا شکار ہواہے اورہر سیکنڈ میں بچوں کے ساتھ آن لائن جنسی زیادتی کا ایک کیس سامنے آرہا ہے۔
برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی کے محققین کا اندازہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 300 ملین سے زیادہ بچے آن لائن سماجی استحصال اور بدسلوکی کا شکار ہو رہے ہیں۔ قانونی سطح پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا مطالعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انٹرنیٹ پر بچوں کا شکار بننے کا مسئلہ کتنا بڑا ہے۔ آن لائن جنسی ہراسانی کی سرگرمیاں بلیک میلنگ کی شکل بھی اختیار کرچکی ہیں۔بہت سے معاملات میں مجرموں نے نجی تصاویر کے عوض رقم کا مطالبہ کیا ہے اور ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں قتل کی وارداتیں بھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹی فیشل انٹلیجنس اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر بنا کر زندہ بچ جانے والوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ ایک کھلا آسمان ہے، جو مثبت اور منفی مواد سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن آج جس طرح فحاشی کا کاروبار ہو رہا ہے کم از کم ہندوستان جیسے ملک اور اس کے معاشرے میں اس کے پیچیدہ اثرات نظر آ رہے ہیں۔بچے جب فحش اور اخلاق سوز سائٹس دیکھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ اور اعصاب پر برے اثرات پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ آسانی سے جنسی جرائم کی طرف لپکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ان مسائل کی روک تھام کیلئے حکومت اورسماج کی سطح پر کوئی موثر کردار ادا نہیں کیاجاتا ہے۔ اب عدالت کے اس فیصلہ سے یہ امید ہوچلی ہے کہ اس سمت حکومت سرگرم ہوگی، امتناعی قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ جنسی تعلیم کے جامع پروگرام نصاب میں شامل کرکے بچوں کے خلاف ہونے والے اخلاقی جرائم کے خاتمہ کی سمت کام کرے گی۔
[email protected]
بچوں کے خلاف اخلاقی جرائم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS